سرینگر : جموں وکشمیر میں گورنر انتظامیہ نے ہندو مذہب کی دو مقدس کتابوں ’بھگوت گیتا‘ اور ’رامائن‘ سے متعلق اپنا وہ حکم نامہ اجرائی کے محض 18 گھنٹے بعد ہی واپس لے لیا ہے۔ حکم نامہ کے تحت اسکولوں، کالجوں اور پبلک لائبریریوں سے کہا گیا تھا کہ وہ ہندو مذہب کی ان دو نوں مقدس کتابوں کی اردو ترجمہ والی کاپیاں وافر تعداد میں خریدیں۔
سرکاری ترجمان کے مطابق حکم نامے کو ریاستی چیف سکریٹری بی وی آر سبھرامینم کی ہدایت پر واپس لیا گیا ہے۔ جموں وکشمیر پولس کے آفیشل ٹویٹر ہینڈل پر ٹویٹ میں بھی کہا گیا ہے کہ ’کچھ مذہبی کتابوں کو متعارف کرانے سے متعلق محکمہ تعلیم کے سرکولر کو چیف سکریٹری کے حکم پر واپس لے لیا گیا ‘۔
Published: undefined
کشمیر کے ایک سینئر صحافی نے ٹوئٹ کرتے ہوئے کہا کہ اس حکم نامے سے تنازعہ اور ممکنہ لاء اینڈ آڈر کی صورتحال پیدا ہوسکتی تھی۔ انہوں نے لکھا ’سبق سیکھ لیا گیا۔ اُس حکم نامے کو واپس لیا گیا جس سے تنازعہ اور ممکنہ لاء اینڈ آڈر کی صورتحال پیداہونے کا امکان تھا۔ ایسے حکم نامے جاری کرنے والوں کے خلاف کاروائی کی جانی چاہیے۔ کشمیر کی صورتحال پہلے سے ہی غیرمستحکم ہے، اس کے چلتے احتیاط برتنا چاہیے‘۔
واضح رہے، مسلم اکثریتی ریاست میں گورنر انتظامیہ نے پیر کے روز ایک حکم نامے میں اسکولوں، کالجوں اور پبلک لائبریریوں سے کہا تھا کہ وہ ہندو مذہب کی دو مقدس کتابیں ’بھگوت گیتا‘ اور ’رامائن‘ کی اردو ترجمہ والی کاپیاں وافر تعداد میں خریدیں۔ تاہم انتظامیہ کا یہ حکم نامہ شدید تنقید کی زد میں آگیا تھا۔
Published: undefined
سوشل میڈیا پر بیشتر لوگوں کا کہنا تھا کہ اول تو ایسے کسی حکم نامے کی ضرورت نہیں تھی، لیکن اگر ضرورت محسوس کی گئی تو باقی مذاہب کی مقدس کتابوں (قرآن اور بائبل ) کا حکم نامے میں ذکر کیوں نہیں؟ حکم نامے پر تبصرہ کرنے والوں میں نیشنل کانفرنس کے نائب صدر اور سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ بھی شامل تھے۔
ٹوئٹر پر ایک صارف تنویر احمد نے لکھا، ’’ٹھیک ہے، لیکن صرف گیتا اور رامائن ہی کیوں! جموں و کشمیر کے اسکولوں میں قرآن شریف، بائبل اور گرنتھ صاحب سمیت تمام مقدس کتابیں پڑھائی جانی چاہئیں، تاکہ دوسرے مذاہب سے وابستہ اساتذہ اور طلبا بھی انہیں پڑھ سکیں۔‘‘
Published: undefined
متذکرہ مکتوب یا حکم نامے کے مطابق یہ فیصلہ 4 اکتوبر کو ریاستی گورنر ستیہ پال ملک کے مشیر بی بی ویاس کی صدارت میں ہونے والی ایک میٹنگ میں لیا گیا تھا۔ سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے حکم نامے پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا تھا کہ صرف بھگوت گیتا اور رامائن ہی کیوں؟ انہوں نے حکم نامے کی کاپی ٹویٹ کرتے ہوئے لکھا تھا ’صرف گیتا اور رامائن ہی کیوں؟ اگر اسکولوں ، کالجوں اور سرکاری لائبریریوں میں مذہبی کتابیں دستیاب بنانے کی ضرورت ہے، تو پھر ایک مخصوص مذہب کی کتابیں ہی کیوں؟ باقی مذاہب کو کیونکر نظرانداز کیا گیا ہے؟ (میرا ماننا ہے کہ اسکولوں، کالجوں اور سرکاری لائبریریوں میں مقدس مذہبی کتابوں کو دستیاب بنانا ضروری نہیں ہے)‘۔
Published: undefined
عمر عبداللہ کے سیاسی صلاح کار تنویر صادق نے اپنے ٹویٹ میں کہا تھا ’میں اس کے خلاف نہیں، لیکن میں اس طرح کے حکم نامے کی اجرائی سے حیران ہوں۔ اس حکم نامے کی کیا ضرورت تھی؟ سبھی مذاہب کی کتابیں کیوں نہیں‘۔ ایک کشمیری صحافی نے اپنے ایک فیس بک پوسٹ میں لکھا تھا ’گورنر کے مشیر نے محکمہ تعلیم سے کہا ہے کہ وہ بھگوت گیتا کی وافر تعداد میں دستیابی کو یقینی بنائیں۔ اچھا ہے۔ لیکن قرآن مجید، گرو گرنتھ صاحب اور بائبل کیوں نہیں؟‘۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز