ریزرویشن ایک ایسی تلوار کی مانند ہے جس میں دونوں طرف دھار ہوتی ہے۔ ریزرویشن سے متعلقہ طبقہ کو خوشی بھی ہوتی ہے اور اس کے دور رس سنگین نتائج بھی بھگتنے ہوتے ہیں۔ سیاسی پارٹیوں کو بھی اس کے نتائج کا خمیازہ بھگتنا پڑتا ہے۔ گزشتہ دو ایک سالوں میں جن مراٹھا گروپوں نے ریزرویشن تحریک کو ہوا دی تھی، اب چند ایک باتوں کو لے کر تھوڑا محتاط نظر آ رہے ہیں۔
سب سے پہلے تو یہ کہ ایسا ہی ریزرویشن انھیں 2014 میں کانگریس-این سی پی کی حکومت نے دیا تھا، لیکن عدالتی کسوٹی پر یہ کھرا نہیں اترا۔ اس کے بعد کانگریس-این سی پی حکومت نے اس وقت کے وزیر خزانہ نارائن رانے کی قیادت میں ایک کمیٹی بنا کر معاملہ اس کے حوالے کر دیا تھا لیکن اس کمیٹی کو کوئی آئینی منظوری نہیں تھی۔
اس بار بھی مہاراشٹر کی بی جے پی کی قیادت والی حکومت نے مہاراشٹر ریاستی پسماندہ طبقہ کمیشن کو مراٹھا تحریک کے مطالبہ پر غور کرنے کے لیے کہا تھا۔ اس ایک رکنی کمیشن نے حکومت کو رائے دی کہ مراٹھوں کو ایک نئے گروپ ’سماجی اور اقتصادی پسماندوں‘ کے طبقہ میں ریزرویشن دیا جانا چاہیے۔ اب بھی اس بات کی کوئی گارنٹی نہیں ہے کہ اس کمیشن کی سفارشات پر عدالتی مہر لگ ہی جائے گی۔
آئین میں واضح ہے کہ صرف ایک ذات کو ریزرویشن نہیں دیا جا سکتا۔ ریزرویشن پانے کے لیے کسی بھی شخص کو شیڈولڈ کاسٹ یا شیڈولڈ ٹرائبس کے گروپ کا حصہ ہونا ہوگا۔ اس گروپ میں کوئی بھی ذات، کسی دوسری ذات سے اعلیٰ نہیں ہو سکتی۔ حالانکہ سالوں سے کئی ذاتیں اور قبائل علیحدہ ریزرویشن کا مطالبہ کرتی رہی ہیں۔ پسماندہ طبقہ اور ملک کی بنجارا ذاتوں میں بھی ایسا ہی ہے۔
ایسے میں خود کو سماجی اور اقتصادی بنیاد پر پسماندہ ہونا ثابت کرنے کے بعد بھی مراٹھا صرف مراٹھا ہونے کی بنیاد پر ریزرویشن کے حقدار نہیں ہو سکتے۔ اسی پینچ کے سبب وہ سرکاری اعلان کے بعد بھی رد عمل میں محتاط نظر آ رہے ہیں۔ مراٹھا کرانتی مورچہ کے کو-کنوینر کرن گائیکر اسی مطالبہ کو اٹھا رہے ہیں کہ مراٹھوں کو او بی سی کے تحت ضمنی گروپ میں ریزرویشن دیا جائے۔ لیکن ایسا ہوتا ہوا نظر نہیں آ رہا کیونکہ او بی سی اور دلت پہلے ہی ان کے حصے میں سے تخفیف کر مراٹھوں کو ریزرویشن دینے کے خلاف ہیں۔ ان کے سب سے بڑے لیڈروں میں سے ایک چھگن بھجبل کہہ ہی چکے ہیں کہ وہ اس کے ساتھ نہیں ہیں، حالانکہ وہ مراٹھا ریزرویشن کے مخالف نہیں ہیں۔ بھجبل کہتے ہیں کہ مراٹھوں کو او بی سی کوٹہ میں شامل کرنے کی جگہ حکومت کو کچھ الگ فارمولہ تلاش کرنا ہوگا۔
ایسا ہوتا ہے تو اس سے او بی سی اور مراٹھوں کے درمیان جھگڑے کا امکان بن سکتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی اگر حکومت نے کسی طرح او بی سی طبقے کو سمجھا کر معاملہ حل بھی کر لیا تو بھی اس کے لیے آئین ترمیم کی ضرورت ہوگی، جسے لوک سبھا اور راجیہ سبھا سے پاس کرانا ہوگا۔ موجودہ حکومت کے پاس اتنا وقت نہیں ہے، اسی لیے گائیکر ٹھیک طرح اس ایشو کو اٹھاتے ہیں کہ دیویندر فڑنویس حکومت نے مراٹھا ریزرویشن کو قانونی جامہ پہنانے میں کافی دیر کر دی۔
دراصل حکومت کے ذریعہ اس معاملے میں فیصلہ لینے میں یقیناً چالبازی کی گئی ہے۔ بہت سے تجزیہ نگاروں کا ماننا ہے کہ اگر حکومت کے اس فیصلے کو عدالتی منظوری نہیں ملتی ہے تو دیویندر فڑنویس حکومت پر الزام نہیں آئے گا اور وہ کہتے پھریں گے کہ انھوں نے تو کوشش کی۔ یعنی بی جے پی یہ سمجھانے کی کوشش کر رہی ہے کہ انھوں نے تو کوشش کی۔ یعنی بی جے پی یہ سمجھانے کی کوشش کر رہی ہے کہ انھوں نے تو وہ کرنے کی کوشش کی جو کام ان کے اپنے ہی نہیں کر پائے۔ دھیان رہے کہ کانگریس-این سی پی میں مراٹھا لیڈروں کی کمی نہیں ہے اور ریاست کے زیادہ تر وزیر اعلیٰ بھی مراٹھا ہی رہے ہیں۔ بی جے پی یہ دلیل بھی دے گی کہ عام طور پر برہمنوں کی پارٹی مانی جانے کے باوجود انھوں نے کوشش کی۔
Published: 22 Nov 2018, 10:09 AM IST
ظاہر ہے اسی دلیل کی بنیاد پر بی جے پی ریاست کے تقریباً 30 فیصد مراٹھا ووٹوں کو اپنے حق میں کرنے کی فراق میں ہے۔ بھوپال کی پیپلز یونیورسٹی کے مشیر ایڈوائزری کونسل کے رکن پروفیسر سدھیر گوہانے کے مطابق ووٹروں کو متاثر کرنے کے لیے بی جے پی کے پاس کوئی دوسری دلیل ہے ہی نہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’سابقہ حکومتوں نے بھی اسی تناسب میں ریزرویشن دیا تھا، پھر بھی مراٹھوں نے 2014 کے انتخاب میں بڑی تعداد میں کانگریس-این سی پی کے خلاف ووٹ دیا تھا۔ لیکن اب باری بی جے پی کی ہے۔‘‘
اس کے علاوہ اگر مہاراشٹر میں ریزرویشن کا جنّ بوتل سے باہر آیا تو پھر گجرات میں پٹیل، راجستھان میں گوجر اور ہریانہ میں جاٹوں کے ریزرویشن کی آوازیں تیز ہو جائیں گی، جو مرکز میں بی جے پی حکومت کے لیے مصیبت کا سبب بن سکتی ہیں۔ اسی طرح اقتصادی طور پر زراعت سے منسلکک ذاتیں بھی اسی بنیاد پر ریزرویشن کی آواز اٹھانے لگیں گی۔ مراٹھا عام طور پر ریزرویشن کے ایشو پر تمل ناڈو کی دلیل پیش کرتے ہیں جہاں سپریم کورٹ کی منظوری سے 50 فیصد سے زیادہ ریزرویشن دیا گیا ہے۔ مہاراشٹر میں یہ پہلے ہی 52 فیصد ہے جب کہ تمل ناڈو میں 69 فیصد۔ لیکن مہاراشٹر کے برعکس تمل سیاست بہت حد تک اعلیٰ ذات مخالف ہے اور پسماندہ طبقہ ہی انتخابات میں نتیجہ خیز کردار ادا کرتے رہے ہیں۔ ایسے میں مہاراشٹر کی بی جے پی حکومت کی یہ چال اندھیرے میں تیر چلانے جیسا ہی ہے۔ اگر عدالتی راستہ پار ہو گیا تو بی جے پی کے وارے نیارے، اور اگر نہیں تو یہ دو دھار والی تلوار پر گرنے کے مترادف ہوگا۔
Published: 22 Nov 2018, 10:09 AM IST
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 22 Nov 2018, 10:09 AM IST