قومی خبریں

خود کی بیٹی کی شادی تو دوسروں کو سر منڈا کر سنیاسی زندگی کی نصیحت کیوں؟ مدراس ہائی کورٹ کا سدگرو سے تلخ سوال

سبکدوش پروفیسر کامراج نے عدالت میں عرضی داخل کرکے الزام لگایا کہ ان کی اعلیٰ تعلیم یافتہ بیٹیوں کا 'برین باش' کیا گیا ہے اور وہ مستقل طور پر ایشا یوگ مرکز میں ہی رہ رہی ہیں۔

مدراس ہائی کورٹ، تصویر آئی اے این ایس
مدراس ہائی کورٹ، تصویر آئی اے این ایس 

'ایشا' فاؤنڈیشن کے بانی اور روحانی گرو کہلانے والے سد گرو جگی باسو دیو پر مدراس ہائی کورٹ نے تلخ تبصرہ کیا ہے۔ عدالت نے ایک مقدمہ کی سماعت کرتے ہوئے ان سے پوچھا کہ آپ نے اپنی بیٹی کی شادی کی ہے اور وہ دنیاوی آسائش سے مزین زندگی جی رہی ہے۔ پھر آپ دیگر خواتین کو کیوں سر منڈوا کر سنیاسی کی طرح جینے کے لیے راغب کرتے ہیں۔

Published: undefined

جسٹس ایس ایم سبرمنیم اور جسٹس وی سیواگنم نے یہ سوال ایک سبکدوش پروفیسر کی طرف سے داخل عرضی پر کیا ہے۔ پروفیسر نے الزام لگایا تھا کہ میری اعلیٰ تعلیم یافتہ بیٹیوں کا 'برین باش' کیا گیا ہے اور وہ مستقل طور پر ایشا یوگ مرکز میں ہی رہ رہی ہیں۔

Published: undefined

کوئمبٹور واقع تمل ناڈو ایگگریکلچر یونیورسٹی میں تدریسی خدمات انجام دینے والے پروفیسر ایس کامراج نے مطالبہ کیا تھا کہ ان کی بیٹیوں کو نجی طور پر عدالت میں لایا جائے۔ ان کے مطالبہ پر 42 اور 39 سال کی ان کی دونوں بیٹیاں عدالت میں آئیں۔ سماعت کے دوران پیر کو ان کی بیٹیوں نے کہا کہ ہم ایشا فاؤنڈیشن میں خود کی مرضی سے رہ رہے ہیں۔ ہمیں کسی طرح کی حراست میں نہیں رکھا گیا ہے۔

عدالت میں یہ مقدمہ گزشتہ ایک دہائی سے چل رہا ہے۔ ایک مرتبہ پہلے بھی اس معاملے کی سماعت کے دوران پروفیسر کی بیٹیوں نے کہا تھا کہ ہم اپنی خواہش سے ہی ایشا یوگ مرکز میں رہ رہے ہیں۔

Published: undefined

والدین کا کہنا ہے کہ جب سے ایشا یوگ مرکز میں بیٹیوں کو رکھا گیا ہے ان کی زندگی جہنم بن گئی ہے۔ حالانکہ ججوں نے اس معاملے میں اور جانچ کا حکم دیا ہے۔ اس کے علاوہ ایشا فاؤنڈیشن سے جڑے سبھی معاملوں کی فہرست تیار کرنے کرنے کی بھی ہدایت دی ہے۔

Published: undefined

مقدمہ کی سماعت کے دوران جسٹس سیواگنم نے کہا "ہم یہ جاننا چاہتے ہیں کہ جس شخص نے اپنی بیٹی کی شادی کی اور اسے سبھی دنیاوی خوشی اور سہولیات والی زندگی میں رکھا، وہ دوسروں کی بیٹیوں کو سر منڈا کر اسے سنیاسی جیسی زندگی جینے کے لیے کیسے کہہ سکتا ہے"۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined