2011 کی مردم شماری کے مطابق ہندوستان میں 2.68 کروڑ افراد معذور ہیں۔ یہ تعداد ملک کی آبادی کی 2.21 فیصد ہے۔ یہ ایک بڑی تعداد ہے لیکن سماج اور حکومت دونوں نے ہی ان کی خاص ضروریات کا دھیان رکھنے اور مین اسٹریم کی زندگی میں انھیں بہتر انداز کے ساتھ شامل کرنے کی سمت میں کم ہی کام کیا ہے۔
Published: undefined
جن شعبوں سے انھیں پوری طرح باہر رکھا گیا، ان میں سے ایک ہے ہیلتھ انشورنس۔ یہ جاننا حیران کرنے والا ہو سکتا ہے کہ بیمہ کمپنیاں کسی بھی معذور شخص کو ہیلتھ انشورنس دینے سے صاف منع کر دیتی ہیں، چاہے وہ کتنا بھی صحت مند کیوں نہ ہو۔ حتیٰ کہ یہ جاننے کے بعد کہ بیمہ کور مانگنے والا شخص معذور ہے، بیمہ کمپنیاں اس پر غور کرنے کو بھی تیار نہیں ہوتیں۔ جبکہ ایسے قانون اور بین الاقوامی سمجھوتے ہیں جو صاف کہتے ہیں کہ وہ اس طرح کا سلوک نہیں کر سکتے۔ وہ کسی اہل اور نااہل شخص کے درمیان تفریق نہیں کر سکتے۔
Published: undefined
بیمہ کمپنیاں اس طرح کی لاپروائی کر کے بچتی رہیں کیونکہ معذوروں کے مفاد کی حفاظت کے لیے حکومت کے ذریعہ مقرر چیف کمشنر اور آئی آر ڈی اے آئی (ہندوستانی بیمہ ریگولیٹری اور ڈیولپمنٹ اتھارٹی) اپنی ذمہ داری نبھانے میں ناکام رہے۔ بے توجہی کے درمیان جی رہے ان 2.68 کروڑ لوگوں کے لیے ہائی کورٹ کا فیصلہ تاریخی طور سے اہم ہونے جا رہا ہے۔ لیکن پہلے اس معاملے کے پس منظر پر تھوڑا دھیان دیں۔
Published: undefined
دہلی ہائی کورٹ میں اس معاملے میں عرضی دہندہ سوربھ ہیں جو سرمایہ کاری سے متعلق ایک تجزیہ کار اور مشیر ہیں۔ 2011 میں 26 سال کی چھوٹی عمر میں ایک حادثہ میں انھیں ریڑھ کی ہڈی میں سنگین چوٹ لگی اور وہ ہمیشہ کے لیے وہیل چیئر کے محتاج ہو گئے۔ حالانکہ اس معذوری کے علاوہ وہ کسی دیگر بیماری سے کبھی متاثر نہیں رہے، کبھی کسی بیماری کے سبب اسپتال میں داخل نہیں ہوئے اور وہ ایک کامیاب معاشی تجزیہ کار کی شکل میں گھر سے کام کرتے ہیں۔
Published: undefined
سوربھ کو ٹھیک ہونے میں تین سال لگ گئے اور اس کے بعد وہ اور ان کے والد نے کم از کم نصف درجن بیمہ کمپنیوں (سرکاری اور نجی دونوں) کے چکر کاٹے لیکن کوئی بھی انھیں کور دینے کو تیار نہیں ہوا۔ سوربھ کو بیمہ کور نہیں دینا ہے، یہ فیصلہ کرنے کے پہلے انھوں نے ٹیسٹ کرا کے یہ جاننے کی کوشش بھی نہیں کی کہ انھیں کسی طرح کی کوئی بیماری ہے بھی یا نہیں۔ سوربھ نے معذوروں کے مفاد کے لیے مقرر چیف کمشنر سے شکایت کی اور کمشنر نے ان کی شکایت کو آئی آر ڈی اے آئی کو بھیج کر اپنی ذمہ داری کو پورا سمجھ لیا۔
Published: undefined
اس کے بعد آئی آر ڈی اے آئی نے سوربھ کی شکایت کو بیمہ کمپنیوں کو بھیج دیا اور اس پر بیمہ کمپنیوں نے جواب دیا کہ انھوں نے حکومت کی پالیسیوں کے مطابق ہی انکار کیا تھا۔ آئی آر ڈی اے نے کمپنیوں کی اس ’وضاحت‘ کو سوربھ کو اس تبصرہ کے ساتھ بھیج دیا کہ بیمہ کنندگان کو پالیسی جاری کرتے وقت کمرشیل پہلو پر غور کرنا ہوتا ہے۔ اس طرح اس نے کمپنیوں کے ناجائز اور غیر اخلاقی عمل پر مہر لگا دی۔
Published: undefined
اس کے بعد سوربھ نے کمپنیوں کے انکار اور سرکاری ایجنسیوں کے غیر معاون رویہ کے خلاف 2019 میں دہلی ہائی کورٹ میں رِٹ پٹیشن داخل کر دی۔ اس معاملے کی پیروی سدھارتھ ناتھ نے کی تھی جس پر عدالت نے معذوروں سمیت کچھ دیگر محروم طبقات کے لیے پالیسی تیار کرنے کی ہدایت دی۔ جسٹس پرتبھا سنگھ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ صحت اور طبی خدمات کا حق زندگی کے حق سے جڑا اہم حصہ ہے۔ معذور شخص پی ڈبلیو ڈی (معذور اشخاص کے حقوق ایکٹ) اور معذوروں پر اقوام متحدہ سمیلن کے تحت طبی بیمہ کوریج کے حقدار ہیں اور ہیلتھ انشورنس کے معاملے میں معذور اشخاص کے ساتھ ان کی آمدنی اور سماجی حالت کی بنیاد پر کوئی تفریق نہیں کی جا سکتی۔ ہندوستان نے بھی اس بین الاقوامی سمجھوتے پر دستخط کیے ہیں۔
Published: undefined
عدالت نے نہ صرف ان دو بیمہ کمپنیوں کو جو مقدمہ میں فریق تھیں (میکس بوپا اور اورینٹل انشورنس کمپنی)، بلکہ دو سرکاری ریگولیٹری، خصوصی طور سے آئی آر ڈی اے کو بھی سخت پھٹکار لگائی۔ جج نے یہ تک کہا کہ اس طرح آئی آر ڈی اے نے مسئلہ کی طرف سے آنکھیں موند لیں اور بیمہ کمپنیوں کا دفاع کیا۔
Published: undefined
عدالت نے دونوں بیمہ کمپنیوں کو سوربھ کی درخواست پر از سر نو غور کرنے اور آئندہ سماعت کی تاریخ تک ایک قرارداد پیش کرنے کے لیے کہا ہے۔ اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ اس نے آئی آر ڈی اے آئی کو سبھی بیمہ فراہم کرنے والی کمپنیوں کی ایک میٹنگ بلانے اور پی ڈبلیو ڈی اور دیگر محروم درجات کے لیے ایک مناسب بیمہ پروڈکٹ تیار کرنے اور انھیں جلد از جلد پیش کرنے کی ہدایت دی ہے۔ سماعت کی آئندہ تاریخ 17 مارچ 2022 ہے اور تب تک اس پر اسٹیٹس رپورٹ پیش کرنا ہوگی۔
Published: undefined
دہلی ہائی کورٹ کا یہ حکم ہندوستان کی 2 فیصد آبادی کے لیے تاریخی ہے۔ عدلات کا یہ فیصلہ سوربھ کے ذریعہ طلب کی گئی راحت سے پرے ہے۔ اس معاملے مین ریگولیٹری کی غلطی پکڑی گئی ہے۔ یہ فیصلہ ہیلتھ کور کا فائدہ اٹھانے کے لیے لاکھوں لوگوں کے لیے دروازے کھول دے گا، یہ سبھی بیمہ کمپنیوں کو سبھی پی ڈبلیو ڈی کو ہیلتھ کور دینے کے لیے مجبور کرے گا۔ ایجنسیوں کو بھی یہ توجہ میں رکھنا ہوگا کہ کمزور لوگوں کے تئیں ان کا لاپروا اور بے حس رویہ عدالتیں برداشت نہیں کریں گی۔ اس معاملے میں افسوسناک کا ایک مقام ایسا ہے جو ہمدردانہ اور مثبت دونوں ہے، حالانکہ سوربھ خود چل نہیں سکتے لیکن انھوں نے اپنے جیسے لوگوں کی زندگی کے معیار میں بہتری کی سمت میں ایک بڑا قدم اٹھایا ہے۔
ویسے، کیا میں نے آپ کو بتایا کہ سوربھ میرا چھوٹا بیٹا ہے؟
(ابھے شکلا سبکدوش آئی اے ایس افسر ہیں)
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز