قومی خبریں

مودی حکومت نے رافیل سستے میں خریدا تو اس کی تعداد 126 سے 36 کیوں ہوئی: کانگریس

سابق مرکزی وزیر دفاع اے کے انٹونی کا کہنا ہے کہ 2000ء میں فضائیہ نے 126 جنگی طیاروں کی ضرورت ظاہر کی تھی اور اب چونکہ حالات زیادہ مشکل ہیں تو طیارے بھی زیادہ تعداد میں خریدے جانے چاہیے تھے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا کانگریس کے سینئر لیڈر اے کے انٹونی کی فائل تصویر

کانگریس نے ایک بار پھر رافیل طیارہ معاہدہ سے متعلق مودی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ 18 ستمبر کو سابق مرکزی وزیر دفاع اور کانگریس کے سینئر لیڈر اے کے انٹونی نے ایک پریس کانفرنس کر کہا کہ مودی حکومت ملک کی سیکورٹی کے ساتھ سمجھوتہ کرنے کی قصوروار ہے۔ انھوں نے پریس کانفرنس کے دوران مرکزی حکومت کی اس بات کو جھوٹ پر مبنی قرار دیا کہ انھوں نے رافیل کی خرید سستی شرح پر کی ہے۔

اے کے انٹونی نے مودی حکومت پر حملہ آور ہوتے ہوئے کہا کہ ’’اگر مودی حکومت نے کانگریس حکومت کے مقابلے سستی شرح پر طیاروں کی خریداری کی ہے تو پھر اس نے 126 کی جگہ صرف 36 طیارے ہی کیوں خریدے؟ اسے تو 126 طیاروں سے زیادہ کی خریداری کرنی چاہیے تھی۔‘‘ انھوں نے کہا کہ ’’مرکزی وزیر قانون کا یہ دعویٰ غلط ہے کہ نئے معاہدہ میں طیارہ یو پی اے معاہدہ سے 9 فیصد سستا ہے۔ یہ بھی مضحکہ خیز ہے کہ مرکزی وزیر مالیات نے اس معاہدہ کو یو پی اے کے مقابلے 20 فیصد سستا اور ہندوستانی فضائیہ کے افسر نے اسے 40 فیصد سستا کہا ہے۔‘‘

Published: undefined

پریس کانفرنس میں میڈیا عملہ سے مخاطب ہوتے ہوئے اے سابق مرکزی وزیر دفاع نے کہا کہ ’’فضائیہ نے سال 2000 میں 126 طیاروں کی ضرورت بتائی تھی۔ سرحد سے ملحق ممالک کی طرف سے خطرہ 2000 کے مقابلے اب مزید بڑھا ہے۔ موجودہ حالات کے مدنظر فضائیہ کو جلد سے جلد 126 سے زائد ہوائی جہازوں کی ضرورت ہے۔‘‘ اے کے انٹونی کا کہنا ہے کہ ’’جب ہندوستانی فضائیہ نے 126 ائیر کرافٹ کا مطالبہ کیا تو پھر ان کی تعداد کم کر کے 36 کرنے کے لیے کس نے وزیر اعظم کو آتھرائزڈ کیا؟‘‘ انھوں نے کہا کہ ہماری حکومت کا دور ختم ہونے سے پہلے بات چیت تقریباً پوری ہو چکی تھی۔ این ڈی اے کے اقتدار میں آنے کے بعد پی ایم مودی نے 10 اپریل 2015 کو 36 ائیر کرافٹوں کی یکطرفہ خرید کا اعلان کیا۔

Published: undefined

اے کے انٹونی نے پریس کانفرنس میں یو پی اے کے درمیان طے کردہ معاہدہ کو ختم کر نیا معاہدہ کیے جانے سے ہوئے کچھ دیگر نقصانات کا بھی تذکرہ کیا۔ انھوں نے کہا کہ ’’اگر یو پی کا معاہدہ رَد نہیں کیا گیا ہوتا تو ایچ اے ایل کو ٹیکنالوجی ٹرانسفر کے ذریعہ زیادہ جدید ٹیکنالوجی حاصل ہوتی۔ اس کو جنگی طیارہ کی تعمیر کا تجربہ ہوتا۔ ہندوستان نے یہ موقع گنوا دیا۔‘‘ انھوں نے مزید کہا کہ ’’مرکزی وزیر دفاع نے دعویٰ کیا کہ ایچ اے ایل ان طیاروں کو بنانے کی اہل نہیں ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ ایچ اے ایل ایسا کرنے والی واحد ایر اسپیس کمپنی ہے۔ اسے ’نو رتن‘ کے درجے سے سرفراز کیا گیا تھا۔ ایچ اے ایل نے سکھوئی-30 سمیت 31 طرح کے 4660 طیارے بنائے ہیں۔‘‘

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined