قومی خبریں

’اراکین پارلیمنٹ کے مائک کے سوئچ پر کس کی انگلیوں کا کنٹرول ہوتا ہے؟‘ لوک سبھا سکریٹریٹ بھی جواب سے ناواقف

سماجی کارکن و سیاسی لیڈر کنہیا کمار نے آر ٹی آئی (حق اطلاعات) ایکٹ کے تحت لوک سبھا سکریٹریٹ سے اس اتھارٹی کی تفصیلات طلب کی تھی جو اراکین پارلیمنٹ کے مائیکروفون کو کنٹرول کرتی ہے۔

<div class="paragraphs"><p>لوک سبھا اسپیکر اوم برلا / آئی اے این ایس</p></div>

لوک سبھا اسپیکر اوم برلا / آئی اے این ایس

 

پارلیمنٹ میں کئی بار دیکھا گیا ہے کہ جب اراکین بول رہے ہوتے ہیں تو اچانک مائک بند ہو جاتا ہے۔ خصوصاً اپوزیشن پارٹیوں کے اراکین کئی بار اس تعلق سے اپنے اعتراضات ظاہر کر چکے ہیں۔ لوک سبھا میں حزب مخالف کے قائد راہل گاندھی بھی بولتے وقت مائک بند ہونے کی شکایت کئی مرتبہ کر چکے ہیں۔ ایسے میں عام لوگوں کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہونا لازمی ہے کہ آخر ’پارلیمنٹ میں اراکین کے مائک کے سوئچ کس کی انگلیاں کنٹرول کرتی ہیں؟‘ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس سوال کا جواب لوک سبھا سکریٹریٹ کے پاس بھی موجود نہیں ہے۔

Published: undefined

دراصل لوک سبھا سکریٹریٹ کو آر ٹی آئی ایکٹ کے تحت سوال بھیجا گیا تھا جس میں جاننے کی کوشش کی گئی تھی کہ لوک سبھا اجلاس کے دوران وہاں مائیکروفون کو کنٹرول کرنے والی اتھارٹی کون ہے۔ لوک سبھا سکریٹریٹ نے اس تعلق سے تفصیلات دینے سے معذوری ظاہر کی اور سوالنامہ سنٹرل پبلک ورکس ڈپارٹمنٹ (سی پی ڈبلیو ڈی) کو ٹرانسفر کر دیا۔

Published: undefined

قابل ذکر ہے کہ جون 2024 میں کانگریس نے مائک بند کیے جانے کا معاملہ زور و شور سے اٹھایا تھا۔ اس وقت کانگریس نے کہا تھا کہ قائد حزب اختلاف راہل گاندھی کا مائک اس وقت بند کر دیا گیا جب وہ لوک سبھا میں نیٹ پیپر لیک کا ایشو اٹھا رہے تھے۔ اس وقت لوک سبھا اجلاس کے براہ راست نشریہ میں راہل گاندھی کو ایوان کے اسپیکر اوم برلا سے مائیکروفون کو فعال کرنے کی گزارش کرتے دیکھا گیا تھا۔ اس وقت برلا نے جواب میں کہا تھا کہ وہ اراکین پارلیمنٹ کے مائیکروفون کے انچارج نہیں ہیں، یعنی وہ اسے کنٹرول نہیں کرتے۔

Published: undefined

بہرحال، سماجی کارکن و سیاسی لیڈر کنہیا کمار نے آر ٹی آئی (حق اطلاعات) ایکٹ کے تحت لوک سبھا سکریٹریٹ سے اس اتھارٹی کی تفصیلات طلب کی تھی جو اراکین پارلیمنٹ کے مائیکروفون کو کنٹرول کرتی ہے۔ یعنی اس اتھارٹی کی جانکاری جو ایوان کے جاری اجلاس کے دوران کسی بھی رکن کے مائیکروفون کو اسٹارٹ/بند کر سکتی ہے، یا پھر یہ کہیں کہ اراکین پارلیمنٹ کی آواز کو خاموش کر سکتی ہے۔ لوک سبھا سکریٹریٹ نے اس سوال کا جواب تو نہیں دیا، لیکن اسے سی پی ڈبلیو ڈی ہیڈکوارٹر ضرور منتقل کر دیا۔ پھر وہاں سے سی پی ڈبلیو ڈی کے پروجیکٹ ریجن دہلی منتقل کیا گیا، اور آخر میں اسے دہلی آفس کے 4 مختلف حصوں میں بھیج دیا گیا۔

Published: undefined

آئیے اب دیکھتے ہیں کہ آر ٹی آئی ایکٹ کے تحت جن 4 دفاتر کو سوالنامے بھیجے گئے، وہاں سے کیا جواب موصول ہوئے۔ پہلے دفتر ’سنٹرل وسٹا پروجیکٹ زون (سول) I‘ نے یہ کہتے ہوئے درخواست کو مسترد کر دیا کہ جو معلومات طلب کی گئی ہیں، وہ ان کے دفتر سے متعلق نہیں ہیں۔ دوسرے دفتر ’پارلیمنٹ سول ورکس سرکل I‘ نے بھی وہی جواب دیا جو پہلے دفتر نے دیا تھا۔ تیسرے دفتر نے بھی مطلوبہ جانکاری کو اپنے ڈپارٹمنٹ سے متعلق نہیں مانا اور کہا کہ اس سلسلے میں ’صفر‘ جانکاری سمجھا جائے۔ چوتھے دفتر ’سنٹرل وسٹا پروجیکٹ الیکٹریکل سرکل 2‘ نے مقررہ وقت میں جواب نہیں دیا جس کے بعد پہلی اپیل داخل کی گئی۔ پہلی اپیل داخل کرنے کے بعد دفتر نے بھی اسی طرح کا جواب بھیجا جیسا کہ بقیہ تینوں دفاتر نے دیے تھے۔ یعنی موصول درخواست ان کے دفتر سے متعلق نہیں ہے۔

Published: undefined

غور کرنے والی بات یہ ہے کہ ان چاروں ہی دفاتر نے اس درخواست کو کسی دوسرے محکمے میں منتقل نہیں کیا۔ لہٰذا یہی کہا جا سکتا ہے کہ حکومت ہند کے لوک سبھا سکریٹریٹ کے پاس اس بارے میں کوئی جانکاری نہیں ہے کہ لوک سبھا میں اراکین پارلیمنٹ کے مائکس کو کس کی انگلیاں کنٹرول کرتی ہیں۔

Published: undefined

کانگریس اور دیگر اپوزیشن لیڈروں نے کئی مواقع پر حکام کو کٹہرے میں کھڑا کرتے ہوئے الزام عائد کیا ہے کہ وہ اہم قومی مسائل پر اختلاف کو دبانے کے لیے قصداً راہل گاندھی کے مائیکروفون کو بند کر رہے ہیں۔ اس معاملے میں لوک سبھا اسپیکر اوم برلا سے کئی بار بحث بھی ہوئی ہے۔ راجیہ سبھا میں بھی مائیکروفون بند ہونے کا معاملہ سامنے آیا ہے۔ گزشتہ جولائی میں جب لوک سبھا اسپیکر کے طور پر اوم برلا اپنی نئی مدت کار شروع کر رہے تھے، تو راجیہ سبھا میں حزب اختلاف کے قائد ملکارجن کھڑگے نے بھی مائک بند ہونے کی شکایت کی تھی۔ انھوں نے ایوان بالا میں تقریر کرتے وقت ان کا مائیکروفون بند کیے جانے کی بات کہی تھی اور بتایا تھا کہ یہ انھیں ’توہین آمیز‘ لگا۔

Published: undefined

لوک سبھا میں اپوزیشن لیڈران کے مائیکروفون بند کیے جانے کا معاملہ ایوان کے باہر بھی اٹھتا رہا ہے۔ راہل گاندھی نے گزشتہ مارچ برطانوی ہاؤس آف پارلیمنٹ میں اپنی تقریر کے دوران ان خدشات کا اظہار کیا کہ کس طرح لوک سبھا میں اپوزیشن اراکین کے مائیکروفون کو ’خاموش‘ کیا جاتا ہے۔ لوک سبھا میں کانگریس کے سابق رکن ادھیر رنجن چودھری نے تو مارچ 2023 میں اسپیکر کو ایک خط بھی لکھا تھا جس میں الزام عائد کیا تھا کہ ان کا مائیکروفون تین دن سے ’خاموش‘ ہے۔

Published: undefined

اس معاملے میں اوم برلا کا کہنا ہے کہ پریزائڈنگ افسران کے پاس ایوان میں اراکین کے مائیکروفون کو بند کرنے کے لیے سوئچ یا ریموٹ کنٹرول نہیں ہے۔ مئی 2014 میں لوک سبھا سکریٹریٹ کی طرف سے جو اصول و ضوابط جاری کیے گئے ہیں، اس کے مطابق کنٹرول روم سے مائیکروفون صرف اس وقت آن ہوتے ہیں جب کسی رکن کو اسپیکر کی طرف سے بولنے کی اجازت دی جاتی ہے۔ دراصل لوک سبھا اور راجیہ سبھا دونوں ہی ایوان میں ایک ساؤنڈ ٹیکنیشین چیمبر ہے جس میں عملہ موجود ہوتا ہے۔ یہی پارلیمانی کارروائیوں کو نقل کرنے اور ریکارڈ کرنے کے لیے ذمہ داری ہوتا ہے۔ اس چیمبر میں ایک الیکٹرانک بورڈ ہوتا ہے جس میں اراکین کے سیٹ نمبر دکھائے جاتے ہیں اور مائیکروفون کا انتظام و انصرام بھی یہیں ہوتا ہے۔ عملہ کے اہلکار یہیں سے مائیکروفون کو کنٹرول کرتے ہوئے پریزائڈنگ افسران اور اراکین پارلیمنٹ کی نگرانی کر سکتے ہیں۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined