مظفرنگر: مغربی اتر پردیش کے ضلع مظفرنگر میں واقع قطب پور گاؤں کے رہائشی 50 سالہ طاہر سیفی گزشتہ 30 سالوں سے گایوں کی پرورش کر رہے ہیں۔ وہ جنگل جاتے ہیں، چارہ لاتے ہیں اور اپنی گایوں کو کھلاتے ہیں۔ گائیں جو دودھ دیتی ہیں اسے فروخت کرکے اپنی گزر بسر کرتے ہیں۔ موب لنچنگ کی وجہ سے متعدد مسلم خاندان ایسے ہیں جنہوں نے گائے کی پرورش بند کر دی ہے، لیکن طاہر سیفی نے ایسا نہیں کیا۔ گایوں کے دودھ کی وجہ سے ہی ان کی عید منتی ہے، خاندان کو روٹی روزی حاصل ہوتی ہے اور اس کے دودھ کی آمدنی سے بچوں کی فیس ادا ہوتی ہے۔
Published: 27 Jun 2020, 9:11 PM IST
طاہر نے جب گائے پروری شروع کی تھی تب دودھ 5 روپے فی لیٹر فروخت ہوتا تھا اور آج وہ اسے 30 روپے فی لیٹر میں فروخت کرتے ہیں۔ ان کے پاس اس وقت 8 گائیں ہیں اور یہی ان کا کل سرمایہ ہے۔ وہ اپنے گاؤں کے بیرونی سرے پر واقع اپنے گھیر (مویشی باندھنے کا باڑہ) میں ان گایوں کو باندھتے ہیں جس کی وجہ سے یہاں گوبر کا ایک بہت بڑھا ڈھیر لگ گیا ہے۔
Published: 27 Jun 2020, 9:11 PM IST
گزشتہ اتوار طاہر جب اپنی بیوی نساء کے ساتھ دودھ نکالنے کے لئے وہاں پہنچے تو چار گائے مردہ حالت میں ملیں۔ طاہر کی تو گویا پیروں تلے زمین کھسک گئی۔ وہ کہتے ہیں ’’چار گائیں مردہ حالت میں دیکھیں تو میری بیوی غش کھا کر گر گئی۔ ہمیں سمجھ میں ہی نہیں آیا کہ یہ کیا ہو گیا! گائے ہمارے لئے صرف ایک جانور ہی نہیں، بلکہ وہ خاندان کی ایک رکن ہیں۔‘‘
Published: 27 Jun 2020, 9:11 PM IST
طاہر کے مطابق ان میں سے دو گائیں دودھ دیتی تھیں اور دو حاملہ تھیں۔ ایک گائے تقریباً 14 لیٹر دودھ دے رہی تھی، طاہر کے مطابق ان گایوں کے 40 ہزار روپے مل رہے تھے پھر بھی انہیں نہیں بیچا تھا۔ طاہر کہتے ہیں ’’میں گائے پالتا ہوں، انہیں بیچتا نہیں، ان کا صرف دودھ بیچتا ہوں۔ ایک مرتبہ ایک لاکھ روپے میں بھینس لے آیا لیکن اسے 42 ہزار میں فروخت کر دیا۔ کیونکہ مجھے گائے پالنا ہی اچھا لگتا ہے۔‘‘
Published: 27 Jun 2020, 9:11 PM IST
طاہر نے مزید کہا ’’گایوں کی موت سے گاؤں والے بھی حیران تھے اور کچھ عورتوں نے میری بیوی کو سنبھالا۔ میری بیوی کو اس قدر صدمہ پہنچا ہے کہ ہوش میں آنے کے بعد تین دن کے بچھڑے کو گود میں لے کر بیٹھ گئی، گویا وہی اس کی ماں ہو!‘‘ طاہر کی بیوی نساء نے کہا کہ زیادہ تر لوگوں کا خیال ہے کہ گایوں کو زہر دیا گیا ہے کیوں کہ ان کے تھن نیلی پڑ گئے تھے۔
Published: 27 Jun 2020, 9:11 PM IST
طاہر کہتے ہیں کچھ لوگوں نے یہ بھی کہا کہ شائد سانپ نے ڈس لیا ہو، لیکن سانپ ایک ساتھ اتنی گایوں کو نہیں ڈس سکتا۔ کچھ لوگوں کا کہنا تھا کہ شائد چارے میں کوئی زہریلا کیمیکل موجود رہا ہو اور باقی کا خیال ہے کہ گایوں کو شاید زہر دیا گیا ہے۔ وہ کہتے ہیں اس کی دو وجوہات ہو سکتی ہیں ایک تو کسی نے رنجشاً یہ کام انجام دیا ہو اور دوسرا زہر دینے والے گروہ نے یہ واردات انجام دی ہو۔
Published: 27 Jun 2020, 9:11 PM IST
طاہر اور نساء کا کہنا ہے کہ ان کی کسی سے رنجش نہیں ہے اور وہ عام غریب لوگ ہیں۔ گاؤں میں سبھی سے دعا سلام رکھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ انہیں تو کوئی اپنے کھیت سے گھاس کاٹنے کو بھی منع نہیں کرتا۔ زہر دینے والے گروہ کے حوالہ سے طاہر نے کہا کہ یہ بات بھی صحیح نہیں ہو سکتی، کیوںکہ گاؤں کے مردہ مویشی کا ٹھیکہ بھی کسی کے پاس نہیں ہے۔ واضح رہے کہ زہر دینے والا گروہ مویشیوں کو زہر دے کر مارتا ہے اور پھر مرے جانور کے اعضا بیچ کر کمائی کرتا ہے۔
Published: 27 Jun 2020, 9:11 PM IST
قطب پور کے کسان بھرت سنگھ کہتے ہیں کہ گایوں کی موت اتنی پُر اسرار طریقہ سے ہوئی ہے کہ اس معمہ کو پوسٹ مارٹم کے بعد ہی حل کیا جا سکتا ہے۔ مگر دقت یہ ہے کہ طاہر گایوں کا پوسٹ مارٹم نہیں کرانا چاہتے تھے۔ طاہر نے کہا، ’’گائیں میرے خاندان کا ایک حصہ تھیں۔ وہ اب مر چکی ہیں۔ میں نہیں چاہتا کہ ان کی لاشوں کا چیر پھاڑ کیا جائے۔ یہ بات میرے لئے تکلیف دہ ہوتی۔ پوسٹ مارٹم کرانے سے مجھے معاوضہ مل سکتا تھا لیکن دل کا درد تو برقرار رہتا۔ اس لئے میں نے رپورٹ درج نہیں کرائی۔‘‘
Published: 27 Jun 2020, 9:11 PM IST
مظفرنگر کے اس گاؤں کے لوگ سیاسی اثر و رسوخ رکھتے ہیں اور گاؤں کی دو ہزار کی آبادی، جس میں ہندو مسلمان سب شامل ہیں، ہم آہنگی سے رہتے ہیں۔ اس واقع کے بعد ان گایوں کے پاس بندھی رہنے والی پانچویں گائے بھی فوت ہو گئی، اس طرح فوت ہونے والی گایوں کی تعداد اب 5 ہو گئی ہے۔ پانچویں گائے طاہر کے بڑے بھائی رحیم الدین کی تھی۔ رحیم الدین نے گائے کی طبیعت خراب دیکھی تو مویشیوں کے ڈاکٹر کو بلا کر لایا لیکن اسے بچایا نہیں جا سکا۔
Published: 27 Jun 2020, 9:11 PM IST
طاہر کے پاس اب محض تین گائیں بچی ہیں مگر ان میں سے کوئی بھی دودھ نہیں دیتی۔ طاہر خالی پڑے پانچ فوت ہو چکی گایوں کے کھونٹے کو نہارتے رہتے ہیں اور کہتے ہیں یہی ان کا گھر تھا۔ طاہر نے کہا ’’اگر یہ حادثہ ہے تو میرے ساتھ ایسا المناک حادثہ آخر کیوں پیش آیا اور اگر یہ کسی کی سازش ہے تو ان بے زبان گایوں کی آخر کیا غلطی ہے؟‘‘ بدقسمتی سے طاہر کے سوالوں کی جواب کسی کے پاس نہیں ہیں۔
Published: 27 Jun 2020, 9:11 PM IST
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 27 Jun 2020, 9:11 PM IST
تصویر: پریس ریلیز