کاس گنج: کاس گنج سے آج 43 سالہ سلیم جاوید نام کے ایک شخص کو گرفتار کیا گیا ہے۔ سلیم جاوید چندن گپتا کے قتل میں نامزد ملزم ہیں اور یہ کیس مہلوک چندن گپتا کے والد سبھاش گپتا کی جانب سے درج کروایا گیا تھا۔ اس معاملے میں ایسا مشتہر کیا جا رہا ہے جیسے سلیم جاوید ہی اس معاملے کے اہم ملزم ہیں لیکن ایسا نہیں ہے۔ سلیم کا بھائی وسیم اس معاملے میں اہم ملزم ہے۔ چندن کے جاننے والوں کے مطابق چندن کی موت وسیم کی چلائی ہوئی گولی سے ہوئی ہے۔ سلیم رشتے میں وسیم کا بڑا بھائی ہے۔ کل بڈو ناگر میں ان کے گھر پر پولس نے قرقی کا وارنٹ چسپاں کیا تھا اور آج سلیم کو پکڑ لیا گیا۔ کچھ لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ سلیم خود پولس کے پاس آیا۔ سلیم اور وسیم کے علاوہ ان کا ایک تیسرا بھائی بھی اس معاملے میں نامزد ہے۔ اسے ورقی خاندان کی شکل میں جانا جاتا ہے۔ معاشی طور پر خوشحال اس خاندان کو یہاں مسلمانوں میں طاقتور تصور کیا جاتا ہے۔
سلیم کی گرفتاری سے پولس نے راحت کی سانس تو نہیں لی ہے لیکن انھیں کچھ تسلی ضرور مل گئی ہے۔ اے ڈی جی پی اجے آنند نے آج سلیم کو میڈیا کے سامنے سب سے بڑی کارروائی کے طور پر پیش کیا۔ اس معاملے کی جانکاری رکھنے والوں کے مطابق یہ ایک معمول کی کارروائی ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ سلیم نامزد ملزم ہے لیکن اس سے یہ طے نہیں ہوتا کہ چندن گپتا کی موت سلیم کی گولی سے ہوئی ہے۔ ابھی چندن کی پوسٹ مارٹم رپورٹ سامنے نہیں لائی گئی ہے لیکن تین دن پہلے پولس نے ورقی خاندان کے گھر سے ایک پستول برآمد کیا تھا اور کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ چندن کو گولی اسی سے لگی۔ لیکن پہلے کہا جا رہا تھا کہ چندن کو گولی رائفل سے لگی ہے بعد میں پستول سے گولی لگنے کی بعد کہی جانے لگی۔
Published: undefined
یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ چندن کو گولی کندھے میں لگی اور اس کے پیٹ میں جا کر پھنس گئی۔ چندن کی جو ویڈیو سامنے آئی ہے اس میں وہ بلیٹ موٹر سائیکل چلا رہا ہے۔ اگر تکنیکی لحاظ سے دیکھا جائے تو یہ گولی چندن کو اوپر سے ماری گئی ہے۔ اس بات کو اس طرح بھی کہا جا سکتا ہے کہ مارنے والا اونچائی پر تھا۔ علاوہ ازیں چندن کی موت کاس گنج کوتوالی کے پچھلے دروازے کے پاس ہوئی جسے تحصیل روڈ کہا جاتا ہے۔ تحصیل روڈ وہی جگہ ہے جہاں ہندو تنظیموں سے جڑے نوجوانوں کی فائرنگ پر مبنی ویڈیو سوشل میڈیا پر گشت کر رہی ہے۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ اسی فائرنگ میں چندن گپتا کی موت ہوئی۔ آج ویڈیو کے وائرل ہونے کے بعد کاس گنج میں ماحول کچھ بدلا ہوا محسوس ہو رہا ہے۔ پولس نے بھی یہاں انٹرنیٹ خدمات پر لگی پابندی ہٹا دی ہے۔
Published: undefined
نیا ویڈیو وائرل ہونے کے بعد یہ بحث شروع ہو گئی ہے کہ جب ہندو تنظیموں سے منسلک نوجوان اندھا دھند گولیاں چلا رہے ہیں تو اس کا امکان بڑھ جاتا ہے کہ اسی گولی سے چندن کی موت ہو گئی ہو۔ اس سلسلے میں سوشل میڈیا پر بحث شروع ہو چکی ہے۔ الٰہ آباد کے سماجی کارکن امریش مشرا نے سوموار کو دعویٰ کیا تھا کہ چندن کی موت اس کے ساتھ والے لڑکوں کی گولی سے ہی ہوئی ہے یا تو یہ غلطی سے ہو گیا یا پھر کسی کی سازش کے تحت ہوا۔ ویڈیو کے سامنے آنے کے بعد ان کا کہنا ہے کہ ’’یہ ترنگا یاترا نہیں تھی بلکہ فساد کرانے کے مقصد سے نکالی گئی یاترا تھی۔‘‘ مقامی مسلمان بھی یہی مان رہے ہیں کہ چندن کی موت اس کے ساتھیوں کی ہی گولی سے ہوئی۔ فہیم اختر کا اس سلسلے میں کہنا ہے کہ ’’بڈو نگر محلے میں گولی باری کا کوئی واقعہ نہیں ہوا۔ یہاں تو نعرے بازی اور پتھراؤ ہوا۔ تحصیل روڈ پر فائرنگ ہوئی اور اب اس کا ویڈیو سامنے آیا ہے جس میں سب گولی داغ رہے نوجوان ہندو تنظیموں سے جڑے ہیں۔‘‘ فہیم مزید کہتے ہیں کہ ’’مسلمانوں کا اب تک ایسا کوئی ویڈیو سامنے نہیں آیا جو قانون کو شرمسار کرے، اقلیتی طبقہ کے غلط نعرے، پتھراؤ، آگ زنی یا فائرنگ کا بھی کوئی ثبوت نہیں ہے، پھر یہ معاملہ زبردستی مسلمانوں پر تھوپا کیوں جا رہا ہے۔ انھیں اُکسایا کیوں جا رہا ہے۔‘‘
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ ممکن ہے کہ چندن کو کسی ’اپنے‘ کی گولی لگی ہو۔ اس سلسلے میں رئیس احمد کہتے ہیں کہ ’’اسے گولی لگی یا فساد پیدا کرنے کے لیے گولی ماری گئی، یہ ہم نہیں جانتے لیکن یہ واضح ہے کہ ہندو تنظیموں کے لڑکے اسلحوں کے ساتھ تھے جب کہ مسلمانوں کے پاس کچھ نہیں تھا۔‘‘ یہاں ہم جان لیتے ہیں کہ جس دن چند گپتا کی موت ہوئی اسی دن ’سنکلپ فاؤنڈیشن‘ کے سربراہ انوکلپ چوہان کا ایک ویڈیو یو ٹیوب پر اَپ لوڈ کیا گیا تھا جس میں انوکلپ نے ندن کی موت کا بدلہ لینے کے لیے مسلمانوں کو گھر میں سے نکال کر مارنے کا اعلان کیا تھا۔ انوکلپ کی اس تنظیم میں چندن کافی سرگرم تھا۔ انوکلپ نے دعویٰ کیا تھا کہ ’ترنگا یاترا‘ میں سبھی لوگ غیر مسلح تھے۔ جب انوکلپ یہ ویڈیو ریکارڈ کر رہا تھا تو کچھ لوگ سامنے سے اسے یہ بھی بتا رہے تھے کہ وہ کیا کہے۔ انوکلپ چوہان نے اس ویڈیو میں دوسرے نوجوان راہل اپادھیائے کے مارے جانے کی بات بھی کہی تھی جو بعد میں جھوٹ ثابت ہوئی۔ اگر انوکلپ سے پوچھ تاچھ ہو تو بہت سارا سچ سامنے آ سکتا ہے۔ چندن گپتا کے قتل کی ابتدائی تحقیق انسپکٹر ریپی دمن سنگھ کر رہے ہیں حالانکہ یہ ذمہ داری ایس آئی ٹی کے سپرد کی جا سکتی ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ ’’ہندو تنظیموں کے ان نوجوانوں کی گولی باری کی یہ حرکت روزنامچہ میں درج ہے اور پولس کی طرف سے رپورٹ بھی لکھی گئی ہے۔‘‘
جب ہم قانون کے ماہر جاں نثار ایڈووکیٹ سے یہ جاننا چاہتے ہیں کہ اگر کسی مقدمہ میں کسی وجہ سے کوئی غلط نامزدگی ہو جائے تو اس میں کیا ہو سکتا ہے، تو وہ ہمیں بتاتے ہیں کہ ’’اکثر ایسا ہوتا رہتا ہے اور دباؤ و تناؤ کو دیکھ کر پولس فوری طور پر کوئی قدم اٹھا لیتی ہے۔ لیکن اس کے بعد نئے انکشاف کے پیش نظر پہلے گرفتار کیے گئے ملزم کے حق میں 169 کی کارروائی کی جاتی ہے اور وہ آزاد ہو جاتا ہے۔‘‘ کاس گنج معاملے میں بھی کیا ایسا کچھ ہو سکتا ہے، یہ کہنا جلد بازی ہوگی۔ لیکن پولس کو یہ ’پاور‘ ہے اور اس طاقت کا استعمال پولس غلط نامزدگی کے خلاف ہی کرتی ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز