دہلی میں تبلیغی جماعت مرکز پر ہوئے جلسہ کے تعلق سے لگاتار میڈیا میں خبریں آ رہی ہیں اور تبلیغی جماعت کو بدنام کرنے کے لیے کئی جھوٹی خبریں بھی سوشل میڈیا پر خوب گشت کر رہی ہیں جو بعد میں پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا کی زینت بن رہی ہیں۔ اس درمیان نیشنلسٹ کانگریس پارٹی (این سی پی) کے سربراہ شرد پوار نے پیر کے روز ایک ایسا سوال کیا جس نے دہلی حکومت کٹہرے میں کھڑی ہو گئی ہے۔ انھوں نے نئی دہلی کے نظام الدین واقع مرکز میں تبلیغی جماعت کے مذہبی جلسہ کے تعلق سے سوال کیا ہے کہ آخر اس کی اجازت کس نے دی؟
Published: undefined
این سی پی سربراہ نے فیس بک پر لوگوں کے ساتھ لائیو بات چیت میں کہا کہ مہاراشٹر حکومت نے اس سے پہلے یہاں اس طرح کے انعقاد کی اجازت نہیں دی تھی۔ انھوں نے کہا کہ "مہاراشٹر میں دو بڑے اجلاس، ایک ممبئی کے پاس اور دوسری سولاپور ضلع میں مجوزہ تھے۔ ممبئی کے پاس والے جلسہ کے لیے اجازت پہلے ہی نہیں دی گئی جب کہ پولس نے ریاست کی جانب سے جاری مشورے کی خلاف ورزی کرنے کے لیے سولاپور پروگرام کے منتظمین کے خلاف سخت کارروائی کی۔" شرد پوار نے پوچھا کہ "اگر مہاراشٹر کے وزیر داخلہ انل دیشمکھ اور وزیر اعلیٰ ادھو ٹھاکرے ایسے فیصلے لے سکتے ہیں تو دہلی میں اسی طرح کے پروگرام کی اجازت دینے سے انکار کیوں نہیں کیا گیا اور کس نے اس کے لیے منظوری دی؟"
Published: undefined
سابق مرکزی وزیر شرد پوار نے نظام الدین کے جلسہ کو میڈیا میں زور و شور سے اچھالے جانے پر بھی مایوسی ظاہر کی۔ انھوں نے کہا کہ "میڈیا کے لیے اس کو اتنا زیادہ اچھالنا کیوں ضروری ہے؟ یہ (میڈیا) بے وجہ ملک میں ایک طبقہ کو نشانہ بناتا ہے۔"
Published: undefined
واضح رہے کہ تبلیغی جماعت مرکز کو کورونا وائرس کے ایک بڑے سنٹر کی شکل میں پیش کیا جا رہا ہے۔ اس مذہبی انعقاد میں دو ہزار سے زیادہ لوگ جمع ہوئے تھے اور بعد میں ان میں سے کئی کورونا وائرس کے انفیکشن میں مبتلا پائے گئے۔ کورونا انفیکشن کے شکار ہونے کے بعد جلسہ میں شامل کئی لوگ اپنی ریاستوں کی طرف گئے اور مبینہ طور پر ریاستوں میں کورونا کا پھیلاؤ بڑھا۔ کئی میڈیا ذرائع میں آ رہی خبروں میں یہ بتایا جا رہا ہے کہ ملک میں ہوئی تقریباً 15 اموات اور انفیکشن کے 400 سے زیادہ معاملے تبلیغی جماعت کے جلسہ کی وجہ سے سامنے آئے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined