لکھنو: ہندوستانی مسلمانوں کے سب سے اعلی اور مستند ادارہ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کو فسطائی طاقتیں توڑنے کی سازش میں ملوث ہیں۔ بابری مسجد اور دیگر مسلم مسائل پر آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورد کا موقف متفقہ الیہ ہوتا ہے مگر اس کے متعدد ممبران اپنے ذاتی بیانات سے بورڈ کے موقف کو ناکام کرنے پر آمادہ رہتے ہیں۔
ایودھیا میں بابری مسجد کی جگہ نام نہاد رام مندر کی تعمیر کے سلسلے میں اب تک پرسنل لاء بورڈ کے اہم عہدے داران کے ایسے بیانات اور ایسی تجاویز نمودار ہوئی ہیں جو عام مسلمانوں کے موقف کو تار تار کرتی ہیں۔
Published: 10 Feb 2018, 6:59 PM IST
بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر کی تجویز کے سلسلے میں بعض مسلم لیڈروں نے کھل کر اور متعدد نے گنجلک مشورے دےکر رام مندر کی حمایت کر دی ہے۔ مسلم پرسنل لاء بورڈ کے نائب صدر ڈاکٹر کلب صادق اور اب مولانا سلمان ندوی کے موقف مسلم پرسنل لاء بورڈ کے متفقہ فیصلوں سے انحراف کر رہے ہیں۔ مولانا کلب صادق نے ایک بار نہیں کئی بار مسلمانوں کے سامنے یہ تجویز رکھی ہےکہ اگر مسلمان سپریم کورٹ میں مقدمہ جیت بھی جائیں تو ملک اور قوم کی بہتری کے لئے ایودھیا میں بابری مسجد کی جگہ رام مندر کے لئے ہندوؤں کو دے دی جائے۔
اب ندوہ کے سینئر مدرس اور مفکر اسلام مولا ناسید علی میاں مرحوم کے عزیز قریب سید سلمان ندوی نے شری شری روی شنکر سے ملاقات کر کے تقریبا ًاس موقف کی حمایت کردی ہے کہ مسجد کی جگہ مندر کے لئے دے دی جائے۔ سلمان ندوی نے مسجد کی جگہ مندر بنانے کی تجویز کو بعد میں اپنی ذاتی رائے کہہ کر مسلم پرسنل لاء بورڈ کے اجلاس حیدر آباد سے غیر حاضر ہو گئے۔مولانا سلمان ندوی کے اس موقف سے پوری دنیا بالخصوص ہندوستانی مسلمانوں میں غم و غصہ ہے۔
Published: 10 Feb 2018, 6:59 PM IST
یہ وہی مولانا سلمان ندوی ہیں جنہوں نے داعش کے سربراہ ابو بکر البغدادی کو عربی زبان میں دو صفحات کا ایک خط لکھا تھا جس میں انہوں نے خود ساختہ امیر المومنین کی مدح سرائی کی تھی اور امید ظاہر کی تھی کہ وہ عدل و انصاف سے دنیا کو بھر دیں گے۔اس خط کے بعد سے سماج میں کھل بلی مچی اور خود مسلمانوں کی اکثریت نے ناراضگی ظاہر کی اور کہا کہ مولانا نے ایک دہشت گرد گروہ داعش کی نہ صرف حمایت کی ہے بلکہ اسکے سربراہ کو خط لکھ کر ہندوستان کی سالمیت کےلئے خطرہ بنا رہے ہیں داعش کی حرکتوں کو بھی تسلیم کیا ہے۔ یاد رہے داعش نے اپنی حکومت کا جو نقشہ جاری کیا اس میں ہندوستان کا گجرات اور کچھ دیگر حصہ بھی شامل کیا تھا۔
اس خط کے بعد سے جب خاص و عام مسلمانوں میں کھلبلی مچی تو سلمان ندوی نے اپنے اس موقف میں تبدیلی لاتے ہوئے فیس بک پر اپنے پیج میں وضاحت شائع کی ۔ جس کی رو سے انہوں نے واضح کیا تھا کہ داعش نے میری امیدوں پر پانی پھیر دیا ہے۔داعش سے انسانی بنیادوں پر جو مطالبات ہم نے کیے تھے وہ پورے نہیں ہوئے، بلکہ داعش کی کارروائیوں نے تمام امیدوں کو ختم کردیا ہے۔مولانا سلمان ندوی نے مزید لکھا تھاکہ ان حقائق کے سامنے آنے کے بعد میں تمام مسلمانوں کو مطلع کرتا ہوں کہ ”داعش“ کے نعروں سے دھوکہ نہ کھائیں،اور جب تک وہ عدل و انصاف اور اسلام کی وسیع النظری کا ثبوت نہ دیں،ان سے متاثر نہ ہوں۔
سماج میں ہر طرف سے تنقید کا نشانہ بن رہے مولانا سلمان ندوی نے اپنے سابقہ خط کے بارے میں اب وضاحت کی ہے حالانکہ انہوں نے اس صفائی میں بھی داعش کی پہلے انجام دی گئی حرکتوں کو تسلیم کیا ہے انہوں نے لکھا ہے کہ ’تمام مسلمانوں کو مطلع کیا جاتا ہے کہ سیریا اور عراق کے ظالم و جابر حکمرانوں کے خلاف جو عوامی مسلح تحریک چل رہی ہے، اس میں جناب ابو بکر البغدادی کی تحریک ”داعش“ نے شام کے متعدد علاقوں کے بعد عراق کے شہر موصل اور دیگر شہروں کو نوری المالکی جیسے جابر اور مجرم کے قبضے سے آزاد کرا کر جو نام روشن کیا تھا، اس کی بنیاد پر میں نے ایک کھلے خط میں بغدادی صاحب سے مطالبہ کیا تھا کہ آپ کی ذمہ داری یہ ہے کہ امن قائم کریں،انصاف کریں،مفتوحہ علاقوں میں عفو عام سے کام لیں اور شیعہ و سنی فرقہ واریت کو دفن کردیں۔مولانا نے مزید لکھا کہ بہرحال حالات پر میری نگاہ رہی اور مجھے افسوس ہے کہ امن ،عدل و انصاف، اور شیعہ و سنی بھائی چارہ کی دعوت کو اُلٹے معنی پہنا کر امن کو نقصان پہونچانے کی سازش رچی جا رہی ہے۔
مولانا سلمان ندوی نے چار نکات پر زور دیتے ہوئے لکھا ہے کہ داعش کی بعد کی کارروائیوں نے تمام امیدوں پر پانی پھیر دیا جن میں ،۱۔ مذہب و مسلک کی بنیاد پر قتل کی کارروائیاں۔۲۔دیگر اسلامی تنظیموں اور تحریکوں کے بارے میں غالیانہ اور متشددانہ موقف، اور ان کی تکفیر، اور ارتداد کی باتیں، بالخصوص جبہة النصرہ اور اخوان المسلمون کے بارے میں بے انتہا متشددانہ رائے۔
مولانا سلمان ندوی کے علاوہ بورڈ سے وابستہ متعدد ایسے افراد ہیں جو سرکاری و غیر سرکاری مذاکرات کاروں یا سیاسی افراد کا تعاون کیا کرتے ہیں اور امت مسلمہ کے ساتھ ساتھ پرسنل لاء بورڈ کو بھی توڑنے کی کوشش میں سرگرداں رہتے ہیں ؟ یہ ایک اہم سوال ہے۔
بابری مسجد کی جگہ شاندار رام مندر کی تعمیر کے سلسلے میں اب تک شنکر اچاریہ کے علاوہ دیگر اعلی ہندو مفکرین نےپیش قدمی کی ہے اور سر دست شری شری روی شنکر اپنی پوری کوشش میں ہیں کہ مسلمان مسجد کے حق سے دستبردار ہوجائیں۔ذرائع کاکہنا ہے کہ شری شری پوری طرح سے رام مندر تحریک اور مندر کی تعمیر میں ہی دلچسپی لے رہے ہیں اور ان کی اب تک کئی لیڈروں سے خفیہ اور متعدد بار کھلے عام ملاقات و مذاکرات ہو چکے ہیں۔
بہرحال مسلمانوں میں مولانا سلمان ندوی اور ان کے جیسے دیگر علما ءو لیڈراں کی خاصی مذمت ہو رہی ہے۔
Published: 10 Feb 2018, 6:59 PM IST
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 10 Feb 2018, 6:59 PM IST
تصویر: پریس ریلیز