کورونا بحران کے اس دور میں آندھرا پردیش کے عوام کچھ زیادہ ہی پریشان نظر آ رہے ہیں۔ پریشانی کی وجہ ایک پراسرار بیماری ہے جس کی زد میں اب تک سینکڑوں لوگ آ چکے ہیں۔ اس بات کو لے کر ڈاکٹر طبقہ کافی تشویش میں مبتلا ہے کہ آخر یہ بیماری کس طرح سامنے آئی اور اتنی بڑی تعداد میں لوگ کیسے اس کا شکار بن رہے ہیں۔ اب اس سلسلے میں ایک نئی جانکاری سامنے آئی ہے جس سے پتہ چل رہا ہے کہ اس بیماری کے پھیلاؤ کی کیا وجہ ہو سکتی ہے۔
Published: undefined
ایمس اور انڈین انسٹی ٹیوٹ آف کیمیکل ٹیکنالوجی (آئی سی ٹی) کے ماہرین کا کہنا ہے کہ خون، دودھ اور سبزیوں میں جراثیم کش کے باقیات، آرگینوکلورین، شیشہ اور نکیل اس پراسرار بیماری کی وجہ بن رہی ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ اب تک اس بیماری کی زد میں کم و بیش 500 لوگ آ چکے ہیں اور ایک شخص کی تو موت بھی واقع ہو گئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ماہرین و محققین بیماری کی وجہ تلاش کرنے میں مصروف ہیں۔ اب جب کہ ایمس اور آئی سی ٹی کی رپورٹ سامنے آئی ہے تو اسے حکومت کے حوالے کیا گیا ہے۔
Published: undefined
اپنی رپورٹ میں ماہرین نے کہا ہے کہ جراثیم کش کی مقدار سبزیوں میں طے کردہ مقدار سے زیادہ تھی۔ نیشنل انسٹی آف نیوٹریشن (این آئی این) کے سائنسدانوں کی ایک ٹیم کا کہنا ہے کہ چاول میں مرکیوری اور خون میں آرگنوفاسفورس کے باقیات ملے ہیں۔ حالانکہ این آئی این نے کہا کہ یہ چیزیں انسانی جسم میں کیسے پہنچیں، یہ جاننے کے لیے زیادہ تحقیق کی ضرورت ہے۔
Published: undefined
اس بیماری کی جڑ کو پکڑنے کے لیے آندھرا پردیش آلودگی کنٹرول بورڈ نے پانی پر ریسرچ کیا اور لیکن اس میں بھاری میٹل کی موجودگی نہیں پائی گئی۔ انسٹی ٹیوٹ آف پریونٹیو میڈیسن نے کہا کہ دودھ میں بھی بھاری میٹل موجود نہیں تھے۔ اس درمیان آندھرا پردیش کے وزیر اعلیٰ وائی ایس جگن موہن ریڈی نے ماہرین کو یہ پتہ لگانے کی ہدایت دی ہے کہ انسانوں کے جسم میں شیشہ، نکیل، آرگنوکلورن اور آرگوفاسفورس کیسے داخل ہوا۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز