اتراکھنڈ کے ہری دوار میں گزشتہ دنوں جو زہریلی تقریریں کی گئیں ان کی صدائے بازگشت اب ہندوستان کی سرحدوں کو عبور کرکے دنیا کے دیگر ملکوں میں بھی سنی جانے لگی ہے۔ اب تو عالمی میڈیا بھی ان تقریروں کی مذمت اور قصورواروں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کر رہا ہے۔ لیکن ہندوستان کی حکومت گاندھی جی کے بندروں کی طرح چپ سادھے بیٹھی ہے۔ وہ گونگی اور بہری بھی ہو گئی ہے اور اندھی بھی۔ ایسا لگتا ہے جیسے نہ تو اس کے کانوں میں مقررین کے زہریلے بول پڑے ہیں اور نہ ہی اس کی آنکھوں نے دنیا بھر میں وائرل ہو جانے والی ویڈیوز ہی دیکھی ہیں۔
Published: undefined
یہ کیسا طُرفہ تماشہ ہے کہ مغل بادشاہ اورنگزیب کے نام نہاد مظالم اور ان کی مبینہ دہشت گردی تو نظر آجاتی ہے لیکن چند روز قبل تقریریں کرنے اور مسلمانوں کے خلاف ہتھیار اٹھانے کی کال دینے والے یتی نرسنگھا نند اور سوامی پربودھانند دکھائی نہیں دیتے، جنھوں نے مسلمانوں کو ہندوستان سے ختم کرنے کی اپیلیں کی ہیں۔ اورنگزیب نے کیا کیا کیا نہیں کیا یہ سب تاریخ کے صفحات پر ثبت ہے اور ان واقعات کو صدیاں گزر گئی ہیں۔ اورنگزیب نے ظلم کیا یا انصاف اس پر مورخین نے صفحات کے صفحات سیاہ کر دیئے ہیں۔ لیکن آج کی تلخ حقیقتوں کو ثابت کرنے کی ضرورت نہیں ہے اور جن پر وقت کی گرد بھی ابھی بیٹھی نہیں ہے۔ پھر بھی وہ نظر نہیں آرہی ہیں۔
Published: undefined
یتی نرسنگھا نند کہتا ہے کہ تلوار سے کام نہیں چلے گا بلکہ ایک لاکھ روپے والا ہتھیار چاہیے۔ ایک لاکھ میں غالباً کلاشنکوف آتی ہوگی۔ گویا وہ کلاشنکوف سے مسلمانوں کے قتل عام کی بات کرتا ہے۔ اسی طرح بربودھا نند نامی نام نہاد سوامی کہتا ہے کہ ہمارے پاس وقت نہیں ہے۔ ان کے صفائے اور تمام ہندووں کو ہتھیار اٹھا لینے کی ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں وہ برما کی مثال دیتا ہے اور کہتا ہے کہ وہاں ہندووں کا قتل عام کیا گیا۔ سوال یہ ہے کہ اگر وہاں ہندووں کا قتل عام کیا گیا تو کیا وہ مسلمانوں نے کیا اور ہندوستان کے مسلمانوں نے کیا جو ان سے اس کا انتقام لینا ہے۔
Published: undefined
اس کے مطابق اب یہ ہمارا ملک ہے۔ آپ نے دلّی بارڈر پر دیکھا کہ انھوں نے ہندووں کو مار ڈالا۔ اب اور وقت نہیں ہے۔ اب تم بھی مرنے مارنے کی تیاری کرو۔ اس کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہے۔ میانمار کی طرح یہاں کے سیاست داں، فوج اور ہندووں سب کو ہتھیار اٹھا لینا چاہیے اور ہمیں صفائی مہم چلانی چاہیے۔ اسی طرح ایک نام نہاد سادھوی کہتی ہے کہ بیس لاکھ مسلمانوں کے قتل عام کے لیے صرف سو ہندووں کی ضرورت ہے۔ ان تمام مقررین نے مسلمانوں کی نسلی صفائی اور جیل جانے کے لیے تیار رہنے کی بات کہی۔
Published: undefined
لیکن کئی روز گزر جانے کے باوجود حکومت اور پولیس کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگ رہی ہے۔ اتراکھنڈ کے پولیس سربراہ اشوک کمار کہتے ہیں کہ یہ سب برداشت نہیں کیا جائے گا۔ لیکن کارروائی کوئی نہیں کی جاتی۔ دنیا کو دکھانے کے لیے ایک رپورٹ درج کی جاتی ہے لیکن اس میں زہر پھیلانے والے اصل کرداروں کے نام شامل نہیں کیے جاتے۔ ان کو دیگر کہا جاتا ہے اور بتایا جاتا ہے کہ جانچ جوں جوں آگے بڑھے گی مزید نام جوڑے جائیں گے۔
Published: undefined
پولیس صرف ایک شخص وسیم رضوی عرف جتیندر ناتھ تیاگی کا نام رپورٹ میں شامل کرتی ہے جس نے اسلام مذہب ترک کرکے ہندو دھرم اختیار کر لیا ہے۔ لیکن اس کا سابقہ مذہب اب بھی اس کی شناخت بنا ہوا ہے۔ جبھی تو اس کا نام رپورٹ میں شامل کیا گیا۔ حالانکہ وسیم رضوی کی کوئی ویڈیو یا آڈیو وائرل نہیں ہے۔ ویڈیو اور آڈیو تو یتی نرسنگھا نند، پربودھانند، اناپورنا اور دوسروں کے وائرل ہوئے ہیں۔ ذرا سوچیے کہ ایک شخص کھلے عام اور بہ بانگ دہل اپنے اس گھناونے عزم کا اعلان کرتا ہے کہ اگر وہ ایم پی ہوتا اور اس کے پاس ریوالور ہوتا تو وہ چھ کی چھ گولیاں سابق وزیر اعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ کے سینے میں اتار دیتا۔
Published: undefined
ڈاکٹر من موہن سنگھ کا قصور کیا ہے؟ انھوں نے ایک بار کہا تھا کہ ملک کے وسائل پر پہلا حق اقلیتوں کا ہے۔ لیکن مذکورہ نام نہاد سادھو کہتا ہے کہ من موہن سنگھ نے کہا تھا کہ ملک کے وسائل پر پہلا حق اسلام کے ماننے والوں کا ہے۔ حالانکہ انھوں نے اقلیت لفظ استعمال کیا تھا اسلام کے ماننے والے نہیں اور اگر یہی کہا ہو تب بھی کیا ان کو قتل کرنے کے عزم کا اظہار کرنے والا اس طرح کھلے عام گھوم سکتا ہے۔ اس کے خلاف کوئی قانونی کارروائی نہیں کی جا سکتی۔
Published: undefined
حالانکہ اسی حکومت میں ایسے متعد واقعات ہوئے ہیں کہ اگر کسی نے وزیر اعظم نریندر مودی یا یو پی کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ یا وزیر داخلہ امت شاہ کے خلاف کوئی معمولی سا بھی بیان سوشل میڈیا پر پوسٹ کر دیا تو اس کو گرفتار کرکے جیل میں ڈال دیا گیا۔ منور فاروقی کو ان لطائف کی بنیاد پر گرفتار کرکے ایک ماہ سے زائد جیل میں رکھا جاتا ہے جو اس نے سنائے بھی نہیں تھے۔ صرف کچھ لوگوں نے اس کے خلاف پولیس میں شکایت درج کرائی تھی کہ وہ ہندو دیوی دیوتاوں کا مذاق اڑاتا ہے اور اپنے آئندہ پروگرام میں پھر مذاق اڑائے گا۔ بس اتنی سی بات پر اسے جیل میں ڈال دیا جاتا ہے۔
Published: undefined
کسی صحافی نے سوشل میڈیا پر یہ پوسٹ ڈال دی کہ گوبر اور گو موتر سے کورونا کا علاج نہیں ہوتا تو اسے بھی گرفتار کر لیا گیا اور سلاخوں کے پیچھے بھیج دیا گیا۔ صحافی صدیق کپن کا کوئی جرم نہیں تھا۔ وہ ہاتھرس جا رہے تھے تاکہ جو واقعہ ہوا ہے اس کی رپورٹ کر سکیں لیکن انھیں گرفتار کر لیا گیا اور ان پر یو اے پی اے جیسا خطرناک قانون لگا دیا گیا۔ ایک سال سے زیادہ ہو گیا اور انھیں ابھی تک ضمانت نہیں ملی ہے۔
Published: undefined
اسی طرح بنگلہ دیش میں درگا پوجا کے موقع پر ہونے والے تشدد کے خلاف تری پورہ میں آر ایس ایس، وشو ہندو پریشد اور بجرنگ دل کے کارکنوں نے مسلمانوں کے مکانوں، دکانوں اور مسجدوں کو جلایا لیکن ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔ بلکہ جن لوگوں نے جلتی مسجدوں کی تصویر سوشل میڈیا پر پوسٹ کر دی ان کو گرفتار کر لیا گیا اور ان پر یو اے پی اے لگا دیا گیا۔ جن صحافیوں نے وہاں پیش آنے الے واقعات کی رپورٹنگ کرنا چاہی ان کو بھی گرفتار کر لیا گیا۔ ان میں دو خاتون صحافی بھی شامل ہیں۔ ان واقعات کی چھان بین کرنے کے لیے جانے والی وکلا کی ٹیم کے چار ارکان پر بھی یو اے پی اے لگا دیا گیا۔
Published: undefined
لیکن ہری دوار میں تقریریں کرنے والوں کے خلاف معمولی سی بھی کارروائی نہیں ہوئی۔ اتراکھنڈ کے پولیس سربراہ کہتے ہیں کہ چونکہ ان کی تقریروں سے کوئی تشدد نہیں پھوٹا لہٰذا ان پر یو اے پی اے نہیں لگایا جا سکتا۔ تو کیا وہ یہ بتائیں گے کہ تری پورہ میں جانے والے صحافیوں اور وکلا کے کن اقدامات سے تشدد پھوٹا اور ان میں ملک کا کیا کیا تباہ ہوا یا ان کے اقدامات سے ملک میں کہاں کہاں فرقہ وارانہ کشیدگی پیدا ہوئی اور لوگوں میں نفرت کی بنیاد پر کہاں تقسیم ہوئی۔
Published: undefined
اگر ہری دوار کی تقریروں کو صحیح مان کر کوئی بھی شخص ہتھیار لے کر نکل جائے اور لوگوں کا قتل عام کرنے لگے تب پولیس کارروائی کرے گی۔ کہاں ایک طرف بے ضرر پوسٹوں کی بنیاد پر سخت ترین کارروائیاں اور کہاں ملک کی دوسری بڑی اکثریت کو تہہ تیغ کرنے کی اپیلیں۔ اور پھر بھی مرکزی حکومت خاموش ہے۔ اتراکھنڈ کی حکومت خاموش ہے۔ یو پی کی حکومت چپ ہے۔
Published: undefined
کیا آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت کے بھی کانوں میں یہ زہریلی باتیں نہیں پڑی ہیں۔ ایک طرف وہ کہتے ہیں کہ جو ہندو مسلمانوں کو پاکستان بھیجنے کی بات کرے وہ ہندو نہیں ہے اور یہ کہ ہندووں اور مسلمانوں کا ڈی این اے ایک ہے۔ صرف طریقہ عبادت میں اختلاف کی وجہ سے کسی سے دشمنی نہیں کی جا سکتی۔ لیکن دوسری طرف مسلمانوں کو مارنے کاٹنے کی باتیں ہوتی ہیں اور پھر بھی وہ چپ رہتے ہیں۔
Published: undefined
حکومت کے ذمہ داروں کی خاموشی سے یہ تاثر ملتا ہے کہ ان لوگوں کو ان کی حمایت حاصل ہے یا پھر ان کی تائید اور رضامندی سے ایسی باتیں کہی گئی ہیں۔ دوسری طرف ملک کے سنجیدہ طبقات کی جانب سے ان لوگوں کے خلاف کارروائی کے مطالبے کیے جا رہے ہیں۔ سابق فوجی اور پولیس افسروں اور انسانی حقوق کے نمائندوں اور کارکنوں نے سخت ترین کارروائیوں کا مطالبہ کیا ہے۔ لیکن وائے افسوس تادم تحریر کسی کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔
Published: undefined
ایسا محسوس ہوتا ہے اور مبصرین اور تجزیہ کار کہہ بھی رہے ہیں کہ یہ خاموشی اس لیے ہے کہ حکومت اور سنگھ پریوار کو لگتا ہے کہ اس کی وجہ سے عوام میں مذہب کی بنیاد پر تقسیم ہوگی اور بی جے پی کو ہندو ووٹ مل جائے گا۔ ان کے مطابق اترپردیش میں بی جے پی کی حالت پتلی ہے اور وزیر اعظم اور دوسروں کو کوئی راستہ نہیں سوجھ رہا ہے۔ لہٰذا ان کے خیال میں ووٹوں کی حصولیابی کا یہ ایک اچھا بہانہ ہے۔ لہٰذا کوئی کارروائی نہ کی جائے اور اس کی آڑ میں ووٹوں کی فصل کاٹی جائے۔ معلوم ہونا چاہیے کہ ووٹوں کی حصولیابی کی یہ سیاست ملک کو تباہ و برباد کر دے گی۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز