نئی دہلی: ہریانہ کے ضلع نوح میں فرقہ وارانہ تشدد کے بعد اپوزیشن لیڈران نے وہاں کا دورہ کرنا چاہا لیکن حکومت نے اس کی اجازت نہیں دی، جس کے بعد یہ سوال کھڑا ہو رہا ہے کہ حکومت آخر نوح میں کیا چھپانا چاہ رہی ہے۔ یہ سوال اس لیے بھی کھڑا ہو رہا ہے کہ بی جے پی لیڈروں کی ایک ٹیم کو نہ صرف نوح میں داخل ہونے دیا گیا بلکہ انہیں عہدیداروں سے ملنے کی بھی اجازت دی گئی؟
Published: undefined
ہریانہ میں مسلسل دو دن تک تشدد جاری رہا، گاڑیوں اور املاک کو آگ لگا دی گئی، فائرنگ اور پتھراؤ کے واقعات رونما ہوئے، تلواروں اور نیزوں سے مسلح ہجوم نے لوگوں کو گھیرے میں لے کر مارا پیٹا، دکانیں اور مکانات کھلے عام لوٹے گئے۔ اس کے بعد حالات معمول پر آنے سے پہلے ہی ہریانہ حکومت نے بلڈوزر آپریشن شروع کر دیا تھا جسے بالآخر پنجاب اور ہریانہ ہائی کورٹ کی سرزنش کے بعد روک دیا گیا۔
Published: undefined
اس دوران بعض علاقوں میں کرفیو اور بعض میں دفعہ 144 نافذ کر دی گئی۔ انٹرنیٹ بند کر دیا گیا جو اب بھی کچھ علاقوں میں نافذ ہے۔ اس دوران اپوزیشن لیڈروں نے تشدد سے متاثرہ لوگوں سے اظہار تعزیت کرنے اور زمینی حقیقت جاننے کے لیے نوح جانے کی کوشش کی لیکن ہریانہ حکومت نے انہیں سرحد سے ہی واپس کر دیا۔ کانگریس کا ایک وفد منگل کو نوح گیا تھا لیکن کسی بھی رہنما کو آگے بڑھنے کی اجازت نہیں دی گئی۔
Published: undefined
اس پر حملہ آور ہوتے ہوئے کانگریس کے ہریانہ یونٹ لیڈر اوم پرکاش دھنکھڑ نے حکومت پر امتیازی سلوک کا الزام لگایا۔ اس کے بعد ان رہنماؤں نے ایک امن میٹنگ کی، جس میں ہریانہ کے سابق وزیر اجے سنگھ یادو نے کہا ’’منگل کو جب کانگریس کے سینئر رہنما متاثرین کا حال جاننے کے لیے نوح جا رہے تھے تو انہیں روک دیا گیا لیکن بدھ کو بی جے پی رہنما وہاں گئے۔ انہیں داخلہ مل گیا۔ ان کے لیے کوئی اصول و ضوابط نہیں ہیں؟‘‘
Published: undefined
اسی طرح ہریانہ عام آدمی پارٹی کے ریاستی صدر سشیل گپتا نے بھی تشدد سے متاثرہ علاقوں کا دورہ کرنے سے روکنے پر ہریانہ حکومت پر سوال اٹھائے ہیں۔ انہوں نے لکھا ’’بزدل کھٹر حکومت نے ہمیں سوہنا کے رائے پور میں نوح جانے سے روک دیا ہے، بھارتیہ جنتا پارٹی کے لوگ نوح جا سکتے ہیں، دوسری جماعتوں کو روکا جا رہا ہے، اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت کچھ چھپانے کی کوشش کر رہی ہے۔ کھٹر حکومت کے پاس شہریوں کی حفاظت کے لیے پولیس نہیں ہے لیکن لیڈروں کو روکنے کے لیے پوری فورس ہے۔‘‘
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز