نئی دہلی کے کالکاجی میں ایک کالج کے قریب ووٹنگ بوتھ کے باہر کھڑی کچھ خواتین اپنے ووٹ کو لے کر تبادلہ خیال کر رہی تھیں۔ ان خواتین سے الگ جنوبی ہند کی ایک خاتون نے کہا ’’ہم بی جے پی کے علاوہ اور کس کو ووٹ دیں گے!‘‘ لیکن چند دیگر خواتین نے صاف طور پر کہا کہ ’’ہم نے تعلیم اور ملازمت کے لیے ووٹ دیا ہے۔ ہمارے بچوں کو ملازمت کی ضرورت ہے۔‘‘ اس جواب سے ظاہر ہے دہلی میں خاتون ووٹرس اپنے بچوں کے مستقبل کو لے کر فکرمند ہیں اور ووٹ اسی کو دینا پسند کر رہی ہیں جو تعلیم اور ملازمت کے شعبہ میں اچھا کام کرے۔
Published: undefined
قابل ذکر ہے کہ چھٹے مرحلے میں جن ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام خطوں میں ووٹ ڈالے گئے، ان میں دہلی بھی شامل ہے۔ دہلی کی سبھی سات پارلیمانی نشستوں پر 25 مئی کو ووٹ ڈالے گئے اور اب سبھی امیدواروں کی قسمت کا فیصلہ ای وی ایم میں قید ہو گیا ہے۔ 2014 اور 2019 میں بی جے پی نے دہلی کی سبھی سات پارلیمانی سیٹوں پر قبضہ کر لیا تھا، لیکن اس مرتبہ حالات بہت بدلے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں۔ بی جے پی نے جہاں دہلی کی سبھی پارلیمانی سیٹوں پر اپنے امیدوار کھڑے کیے ہیں، وہیں عآپ اور کانگریس نے اتحاد قائم کر آپس میں سیٹیں تقسیم کر لی ہیں۔ چار پارلیمانی سیٹوں پر عآپ امیدوار انتخابی میدان میں نظر آئے اور تین پارلیمانی سیٹوں پر کانگریس امیدوار بی جے پی کے مد مقابل کھڑے ہوئے۔
Published: undefined
دہلی میں جو سات پارلیمانی نشستیں ہیں، ان کے نام ہیں نئی دہلی، شمال مغربی دہلی، مغربی دہلی، شمال مشرقی دہلی، مشرقی دہلی، جنوبی دہلی اور چاندنی چوک۔ عآپ نے مشرقی دہلی سے کلدیپ کمار، مغربی دہلی سے مہابل مشرا، نئی دہلی سے سومناتھ بھارتی اور جنوبی دہلی سے ساہی رام پہلوان کو میدان میں اتارا ہے۔ کانگریس نے چاندنی چوک سیٹ سے جئے پرکاش اگروال، شمال مشرقی دہلی سے کنہیا کمار اور شمال مغربی دہلی سیٹ سے ادت راج کو امیدوار بنایا ہے۔
Published: undefined
کالکاجی (جو جنوبی دہلی پارلیمانی حلقہ میں آتا ہے) کے پولنگ مراکز پر ووٹرس بڑی تعداد میں جمع دکھائی دیے۔ جنوبی دہلی پارلیمانی حلقہ سے بی جے پی نے رامویر سنگھ بدھوڑی کو میدان میں اتارا ہے جہاں ان کا مقابلہ عآپ امیدوار ساہی رام پہلوان سے ہے۔ دیگر پارلیمانی حلقوں کی بات کریں تو بی جے پی نے شمال مشرقی دہلی سے منوج تیواری کو، نئی دہلی سے بانسری سوراج کو، مشرقی دہلی سے ہرش ملہوترا کو، شمال مغربی دہلی سے یوگیندر چندولیا کو، چاندنی چوک سے پروین کھنڈیلوال کو اور مغربی دہلی سے کمل جیت سہراوت کو امیدوار بنایا ہے۔
Published: undefined
نئی دہلی پارلیمانی حلقہ کی بات کریں تو یہاں سے عآپ نے سومناتھ بھارتی کو امیدوار بنا کر بی جے پی کو سخت مقابلہ دیا ہے۔ سومناتھ بھارتی مالویہ نگر سے تین بار رکن اسمبلی رہے ہیں اور وہ آنجہانی مرکزی وزیر خارجہ سشما سوراج و میزورم کے سابق گورنر سوراج کوشل کی بیٹی بانسری سوراج کو سخت ٹکر دے رہے ہیں۔ ووٹرس سومناتھ بھارتی اور بانسری سوراج کے درمیان پوری طرح تقسیم ہو گئے ہیں۔ ایک طرف سومناتھ بھارتی ہیں جو ہمیشہ عوام کے درمیان رہتے ہیں، اور دوسری طرف بانسری سوراج ہیں جو نیا چہرہ ہیں۔
Published: undefined
سی آر پارک کے ایک ووٹر سوسانت دیب کا کہنا ہے کہ ’’صبح کے وقت بی جے پی کے کئی روایتی ووٹرس ووٹ ڈالنے پہنچے تھے، لیکن دوپہر تک نوجوان ووٹرس کی بڑی تعداد ووٹ ڈالنے پہنچی۔ یہ کسی کو یکطرفہ ووٹ نہیں دے رہے تھے، لیکن بیشتر نوجوان عآپ کو ووٹ دینے آئے تھے۔‘‘ انھوں نے مزید کہا کہ بانسری سوراج کے لیے یہ آسان راستہ نہیں ہے، کیونکہ سومناتھ بھارتی نے زمین پر اچھا کام کیا ہے اور نوجوان اس تبدیلی کو پسند کر رہے ہیں۔
Published: undefined
چاندنی چوک پارلیمانی حلقہ میں کچھ ووٹرس نے بات چیت کے دوران کانگریس کی اسکیم کو لے کر کافی دلچسپی دکھائی۔ اس سیٹ سے کانگریس نے سابق رکن پارلیمنٹ جئے پرکاش اگروال کو میدان میں اتارا ہے جن کا مقابلہ بی جے پی امیدوار پروین کھنڈیلوال سے ہے۔ دہلی 6 کے ووٹرس کا کہنا ہے کہ وہ ملازمت اور تعلیم کے لیے ووٹ دے رہے ہیں۔ صبیحہ، شائستہ اور رومانہ نامی ووٹرس نے کانگریس کی ’مہالکشمی اسکیم‘ کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ اس نے ہماری توجہ اپنی طرف کھینچی ہے۔ عام انتخاب میں پہلی بار ووٹ ڈالنے والے انس نامی ووٹر نے بھی کچھ ایسا ہی جذبہ ظاہر کیا۔
Published: undefined
بلیماران علاقہ کے باشندہ فیض نے مودی حکومت کے تئیں اپنی مایوسی کا اظہار کیا۔ انھوں نے تو ’مودی ہٹاؤ، دیش بچاؤ‘ کا نعرہ ہی بلند کر دیا۔ فیض کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس کے نزدیک مختلف طبقات کے درمیان امن کا ماحول قائم رہنا سب سے زیادہ اہم ہے۔ عمران نامی ایک بزرگ ووٹر نے اپنی بات رکھتے ہوئے کہا کہ ’’عآپ اور کانگریس نے ہاتھ ملا لیا ہے، لیکن صرف مسلم ووٹ کافی نہیں ہے۔‘‘ ساتھ ہی وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ ’’چاندنی چوک علاقہ کے لوگوں اور تاجروں کو چاہیے کہ وہ جئے پرکاش کو ووٹ دیں۔ وہ علاقے میں مقبول ہیں، لیکن انھیں کامیابی ملے گی یا نہیں یہ تو تبھی پتہ چلے گا جب 10 دنوں میں ریزلٹ سامنے آئے گا۔‘‘
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز