حیدرآباد: اے پی کے ضلع سریکاکلم کے ڈی مچیالم سے تعلق رکھنے والا 22 سالہ کے راجو نے گزشتہ سال مئی میں گھر چھوڑ دیا تھا۔ پیشہ کے اعتبارسے ماہی گیر راجو گجرات آ گیا تھا تاکہ وہ مغربی ساحل پر کام کرسکے۔ 22 اپریل کو وہ کشتی کے کیبن میں مردہ پایا گیا۔ اس کے ساتھ رہنے والوں نے کہا کہ وہ 22 مارچ سے تناؤ کا شکار تھا جب سے لاک ڈاون کا اعلان کیا گیا تھا۔
Published: undefined
راجو ان 6000 ہزار ماہی گیروں میں سے ایک ہے جن کا تعلق اے پی کے وجیا نگرم اور سریکاکلم کے مختلف مواضعات سے ہے۔ یہ تمام گجرات کے ورار میں پھنسے ہوئے ہیں۔ ایک ماہی گیر کی جانب سے پوسٹ کی گئی ویڈیو میں دکھایا گیا ہے کہ ماہی گیروں کا ایک بڑا طبقہ راجو کی لاش کے قریب بیٹھا ہے۔
Published: undefined
اس گروپ میں شامل ایک شخص کا کہنا ہے کہ اس کی موت کم عمر میں ہو گئی اور وہ اپنی نو زائیدہ بچی کو بھی نہیں دیکھ پایا۔ کئی ماہی گیروں کا کہنا ہے کہ وہ نامناسب غذا، سینی ٹیشن کے مسائل اور اجرتوں کی عدم ادائیگی کا شکار ہیں۔
Published: undefined
ان ماہی گیروں میں سے ایک خاتون کا کہنا ہے کہ ہر گزرتے دن کے ساتھ مشکلات بڑھ رہی ہیں۔ لاک ڈاون کے اختتام تک ہم مرجائیں گے۔ اگر ایسا چلتا رہا تو حکومت کو آکر ہماری لاشیں ہی حاصل کرنی پڑیں گی۔ اسی دوران اے پی کے وزیر اعلی جگن موہن ریڈی نے افسران کو ہدایت دی ہے کہ ان ماہی گیروں کو سمندری راستہ سے اے پی منتقل کیا جائے۔
Published: undefined
ایک اور ویڈیو میں گٹو کوپالا دھننجے یاراو نامی ماہی گیر نے کہا کہ ’’یہاں ہمیں بنیادی سہویات میسر نہیں ہو رہی ہیں۔ مرکزی اور مقامی لیڈران لگاتار کہہ رہے ہیں کہ وہ خیال رکھ رہے ہیں اور بنیادی سہولیات دستیاب کرا رہے ہیں لیکن یہاں ہمیں پانی اور ٹوئلٹ تک نصیب نہیں ہے۔ ہمیں گندا پانی استعمال کرنے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔‘‘ دھننجے یاراو نے کہا، ’’ہم حکومتوں سے پوچھتے ہیں کہ ہمارے مسائل کا حل کون کرے گا۔ برائے مہربانی ہماری پریشانی دور کریں۔‘‘
Published: undefined
ادھر، آندھر اپردیش کے وزیراعلی وائی ایس جگن موہن ریڈی نے کورونا وائرس کی روک تھام کے لئے نافذ کردہ لاک ڈاون کے سبب گجرات میں پھنسے اے پی کے ماہی گیروں کے سلسلہ میں گجرات کے اپنے ہم منصب وجے روپانی سے فون پر بات کی۔ جگن نے افسران کو ہدایت دی کہ ان پھنسے ہوئے مزدوروں کو سمندری راستے سے لانے کے اقدامات کیے جائیں۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined