’’ہم آئین کے خادم ہیں، مالک نہیں۔ جج یہ طے نہیں کرتے کہ سماج کیسا ہوگا۔‘‘ یہ بیان سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ نے آج کولکاتا میں جیوڈیشیل اکیڈمی کی ایک تقریب میں حصہ لیتے ہوئے اپنے خطاب کے دوران دیا۔ اس دوران انھوں نے ہم عصر عدالتی ترقی پر بھی اپنی رائے رکھی اور کہا کہ کبھی کبھی جج ہدایت دیتے وقت اپنی سوچ کا بھی استعمال کرتے ہیں جو کہ نہیں ہونا چاہیے۔
Published: undefined
چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ کا کہنا ہے کہ ہم عصر لفظ بہت اہم ہے۔ کیونکہ یہ اس کام کے بارے میں بات نہیں کرتا ہے جو ہمیں دکھائی نہیں دیتا، بلکہ یہ لفظ سماج کے ضمن میں بات کرتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ہم جج کے طور پر اپنے کام میں کئی چیلنجز کا سامنا کرتے ہیں۔ اس لیے ہم قانون اور تکنیک کو سماجی حالات کے پس منظر سے دیکھتے ہیں۔
Published: undefined
چیف جسٹس چندرچوڑ نے ہم عصر انصاف کو ایک مثال کے ذریعہ سمجھانے کی کوشش کی۔ انھوں نے کہا کہ کئی بار جج غیر شادی شدہ جوڑوں کے معاملوں میں ذاتی نظریہ اختیار کرتے ہیں۔ کئی بار جج یہ طے کرتے ہیں کہ سماجی نظام کیسا ہوگا۔ لیکن ججوں کو آئین کے نظریے سے سماجی نظام کو دیکھنا چاہیے۔ چیف جسٹس نے یہ بھی کہا کہ کئی بار جج گھر کی رازداری کے سبب بین مذہبی شادی ہونے کی بات سننے کے بعد بھی سیکورٹی کا حکم نہیں دیتے۔
Published: undefined
اپنے خطاب کے شروع میں چیف جسٹس نے آئین کی اخلاقیات پر بھی بات کی۔ انھوں نے بتایا کہ ہر ہندوستان کو اپنی خواہش کے مطابق رہنے کا حق حاصل ہے، یہی آئین کی اخلاقیات کی اہمیت ہے۔ چیف جسٹس نے نظامِ عدالت میں ٹیکنالوجی کے استعمال کی اہمیت کو بھی سمجھایا۔ ان کا ماننا ہے کہ ملک کے ہر شخص کو یہ سمجھنا چاہیے کہ سپریم کورٹ اس کے حق میں ہے۔ انھوں نے عوام کو عدالتی عمل کے تئیں بیدار ہونے کا مشورہ بھی دیا۔ انھوں نے کہا کہ شکایت دہندہ کو یہ جاننے کا حق ہے کہ عدالت میں معاملہ داخل ہونے سے پہلی سماعت تک آخر کتنا وقت لگتا ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined