نوٹ بندی، مہنگائی اور افرا تفری کے ماحول میں آج ہماچل پردیش میں اگلی حکومت کا مستقبل بیلٹ باکس میں بند ہو گیا۔ ہر طرف ایک ہی طرح کی باتیں سننے کو مل رہی تھیں کہ ’’ٹکر کانٹے کی ہے، ٹھیک ٹھیک کچھ کہا نہیں جا سکتا ہے۔‘‘ کچھ لوگ یہ بھی کہتے ہوئے سنے جا رہے تھے کہ ’’باری تو بی جے پی کی ہی ہے لیکن اس کی راہ آسان نہیں ہے۔‘‘ فوجیوں کی ناراضگی بھی بی جے پی کے لیے پریشانی کا سبب بنی ہوئی ہے۔ یہ بات بھی گرم ہے کہ امت شاہ نے اپنا جانا پہچانا داؤ چلتے ہوئے آزاد امیدواروں کو بڑے پیمانے پر کھڑا کروایا ہ تاکہ ووٹ تقسیم ہو سکے۔ پوسٹر پر بھی بی جے پی نے پانی کی طرح پیسہ بہایا ہے۔
بی جے پی نے جہاں آخری دور میں راجپوت لیڈروں کو انتخابی تشہیر کے لیے اتارا وہیں کانگریس کی جانب سے تشہیر کی پوری ذمہ داری ویر بھدر ہی سنبھال رہے تھے۔ کانگریس صدر سونیا گاندھی کو یہاں انتخابی تشہیر میں موجود رہنا تھا لیکن طبیعت خراب ہونے کی وجہ سے انھیں واپس لوٹنا پڑا۔ کانگریس لیڈر آنند شرما کی بھی سرگرمی نہ رہنے کے الگ الگ اسباب بتائے جا رہے ہیں۔ ہماچل میں 17 فیصد ایس سی ووٹوں کا کردار بھی انتہائی اہم رہے گا کیونکہ راجپوت ووٹ کانگریس اور بی جے پی میں تقسیم ہوں گے۔ تاجروں میں تو جی ایس ٹی اور نوٹ بندی کے تئیں گہری ناراضگی سے کسی کو انکار نہیں ہے۔ اس کا اثر ووٹ پر پڑنا لازمی تصور کیا جا رہا ہے۔
پرمانو سے لے کر شملہ تک راستے میں جتنے لوگوں سے بھی بات ہوئی سب کے خیالات تقریباً یکساں تھے۔ ایک بات صاف تھی کہ بی جے پی کے لیڈروں اور کارکنان کے لیے جی ایس ٹی، نوٹ بندی اور مہنگائی کے ایشو پر مرکزی حکومت کو بچانا مشکل ہو رہا تھا۔ ان کے پاس مرکزی حکومت کے ان عوام مخالف اقدام کو درست ٹھہرانے کی کوئی دلیل نہیں تھی۔ زیادہ سے زیادہ وہ یہی کہتے تھے کہ آگے چل کر سب ٹھیک ہو جائے گا۔ لیکن کانگریس کی تیاری میں بی جے پی کو گھیرنے والی بات دکھائی نہیں دی۔ سولن میں ایک خاتون ٹیچر پشپا سنگھ نے کہا کہ ’’میں نے 2014 میں مودی کو ووٹ دیا تھا لیکن اب اس بات کا مجھے افسوس ہے۔ انھوں نے عام لوگوں کے لیے کچھ نہیں کیا۔ گیس کا سلنڈر دوگنا کر دیا، مہنگائی سے دماغ خراب ہے، جی ایس ٹی سے میرے شوہر کا کاروبار بیٹھ گیا۔ لیکن کیا کریں، ہمارے ہماچل میں تو چلن ہی ہے کہ ایک بار کانگریس تو دوسری بار بی جے پی۔ اس لحاظ سے بہت لوگ بی جے پی کے اقتدار پر قابض ہونے کی بات کہہ رہے ہیں۔ لیکن اس بار یہ اتنا آسان نہیں ہے۔‘‘
اس طرح کی کشمکش بہت سے لوگوں میں دیکھنے کو مل رہی ہے۔ قابل ذکر ہے کہ 1993 سے یہ سلسلہ لگاتار چلا آ رہا ہے کہ ایک بار اسمبلی انتخاب میں کانگریس فتحیاب ہوتی ہے تو دوسری بار بی جے پی حکومت بنانے میں کامیاب ہوتی ہے۔ شملہ میں ووٹ دے کر آئی سرکاری ملازمت کرنے والی پریما بالا کا کہنا تھا کہ ’’کانگریس کی واپسی کے امکانات ہیں بشرطیکہ بی جے پی پیسے کی طاقت پر کوئی کھیل نہ کرے۔‘‘ شملہ میں ایک ہوٹل میں کام کرنے والے 26 سالہ نرپیندر مشرا نے بغیر کسی جھجک اور پریشانی کہا کہ اس مرتبہ تاریخ بدلنے جا رہا ہے۔ کانگریس کو حکومت بنانی چاہیے۔ انھوں نے کہا کہ فوجی بی جے پی حکومت سے بہت ناراض ہیں۔ وَن رینک وَن پنشن والوں نے شملہ میں میٹنگ کر کے کھلے عام بی جے پی کے خلاف ووٹ دینے کی اپیل کی۔ نرپیندر نے بتایا کہ مہنگائی میں زبردست اضافہ ہوا ہے، گیس سلنڈر کی قیمت دو گنی کر دی گئی ہے اور ملازمت دینے کی جگہ بی جے پی حکومت چھین رہی ہے۔ اس سے لوگوں میں بہت بے چینی ہے۔
واضح رہے کہ کانگریس کے وزیر اعلیٰ 83 سالہ ویر بھدر سنگھ اس مرتبہ آٹھویں بار انتخاب میں کھڑے ہوئے ہیں اور ساتویں بار وزیر اعلیٰ کی ریس میں ہیں۔ بی جے پی 73 سالہ پریم کمار دھومل نے بھی اپنی پوری طاقت جھونک دی ہے۔ بی جے پی طرف سے راجپوت لابی کے تمام لیڈروں کو ہماچل پردیش میں اتارنا پڑا۔ اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ سے لے کر وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ سب کو جس طرح سے ہماچل میں انتخابی تشہیر میں بی جے پی نے اتارا اس سے صاف پتہ چلتا ہے کہ اسے بھی لگ رہا تھا کہ اس مرتبہ جیت بہت آسان نہیں ہوگی۔ ہماچل پردیش کے 68 اسمبلی سیٹوں کے لیے 337 امیدواروں میں 112 آزاد امیدوار کھڑے ہیں۔ اس بار دونوں ہی پارٹی سے ناراض امیدواروں نے الگ ہٹ کر خوب پرچہ بھرا ہے اور یہ اندازہ نہیں لگ پا رہا ہے کہ وہ کس کا ووٹ کاٹیں گے۔ ہماچل پردیش حکومت میں میڈی انچارج رہے بی ڈی شرما نے اس نامہ نگار کو بتایا کہ مقابلہ اس بار بہت دلچسپ ہے۔ بی جے پی کے پاس ویر بھدر حکومت کے خلاف گڑیا عصمت دری اور بھائی-بھتیجاواد کا ایشو ہے جب کہ ریاستی بی جے پی کو مرکزی حکومت کی پالیسیوں سے پیدا ہوئی ناراضگی سے نبرد آزما ہونا پڑ رہا ہے۔ کافی ہاؤس میں بات چیت کے دوران آخر میں قہقہوں کے ساتھ انھوں نے جو کہا وہ بہت دلچسپ تھا۔ انھوں نے کہا کہ ’’آخر میں پیسے کا کھیل تو چلے گا ہی۔ زیادہ سیٹیں نہیں آئیں تو خریدنے میں کتنی دیر لگتی ہے۔‘‘ شملہ بی جے پی کے ایک افسر آر کشیپ نے اس جملہ میں اضافہ کرتے ہوئے کہا کہ ’’ابھی تو یہ ٹرینڈ ہی ہے۔ ویسے ہماچل میں بی جے پی کو یہ سب کرنے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔‘‘
ہماچل میں سی پی آئی ایم بھی پوری طاقت کے ساتھ انتخاب لڑ رہی ہے اور شملہ شہری (سنجے چوہان)، تھیوگ (راکیش سنگلا) اور کسومتی (کلدیپ تنور) اسمبلی حلقوں میں پارٹی کی اچھی گرفت بتائی جاتی ہے۔ بہر حال انتخابی نتائج 40 دن بعد آنے ہیں۔ تب تک قیاس آرائیوں کی کھچڑی پکتی رہے گی۔
Published: 09 Nov 2017, 8:35 PM IST
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 09 Nov 2017, 8:35 PM IST
تصویر: پریس ریلیز