لوک سبھا انتخاب کو لے کر سبھی پارٹیوں کی سیاسی سرگرمیاں جاری ہیں۔ پہلے مرحلہ کا انتخاب 19 اپریل کو ہو چکا ہے اور دوسرے مرحلہ کے تحت کل ووٹ ڈالے جائیں گے۔ ایسے میں دوسرے مرحلہ کی لوک سبھا سیٹوں کے لیے انتخابی تشہیر کا عمل 24 اپریل کی شام ہی ختم ہو چکا تھا اور اب سب کی نگاہیں 26 اپریل کو ہونے والی ووٹنگ پر مرکوز ہیں۔ خاص طور سے اتر پردیش میں پہلے مرحلہ میں ہوئی ووٹنگ کے پیٹرن کو دیکھتے ہوئے اس مرتبہ انڈیا اتحاد کو بہتر کارکردگی کی امید ہے۔ 2019 کے نتائج کی بنیاد پر دیکھیں تو دوسرے مرحلہ میں اتر پردیش کی جن 8 لوک سبھا سیٹوں پر ووٹ ڈالے جائیں گے، ان میں سے 7 بی جے پی کے پاس ہیں۔ لیکن اس مرتبہ کی مزید تین سیٹیں پھنسی ہوئی ہیں۔ انڈیا اتحاد کی طرف سے اس مرحلہ میں 4 سیٹ پر کانگریس اور 4 پر سماجوادی پارٹی کے امیدوار کھڑے ہیں۔ ان آٹھ سیٹوں پر بی ایس پی نے بھی اپنے امیدوار کھڑے کیے ہیں اور کچھ سیٹوں پر وہ مضبوط بھی ہیں۔ اتر پردیش کی جن 8 لوک سبھا سیٹوں پر دوسرے مرحلہ میں ووٹ ڈالے جائیں گے، وہ سیٹیں ہیں میرٹھ، گوتم بدھ نگر، غازی آباد، بلند شہر، علی گڑھ، باغپت، امروہہ اور متھرا۔ یہ سبھی سیٹیں قومی راجدھانی علاقہ دہلی کے قریب والی ہیں۔ آئیے سلسلہ وار جانتے ہیں کہ ان سیٹوں پر کس طرح کا مقابلہ دیکھنے کو مل سکتا ہے۔
Published: undefined
بی جے پی یہاں اداکار ارون گووِل کو انتخاب لڑا رہی ہے۔ انڈیا اتحاد کی طرف سے سماجوادی پارٹی امیدوار سنیتا ورما یہاں انتخابی میدان میں ہیں۔ سنیت ورما میرٹھ کی سابق میئر ہیں اور انڈیا اتحاد کے کارکنان و لیڈران کی حمایت میں متحد ہو کر کھڑے دکھائی دے رہے ہیں۔ دوسری طرف ارون گووِل سے بی جے پی کا ایک طبقہ ناراض دکھائی دے رہا ہے۔ ان کے ٹکٹ کو لے کر کئی طرح کے اعتراضات پارٹی میں ظاہر کیے گئے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ وہ مالا نہیں پہنتے، ہاتھ نہیں ملاتے، گاڑی سے باہر نہیں نکلتے۔ یعنی سیاسی طور پر وہ اَنفٹ ہیں۔ ان کی حصولیابی بس یہ ہے کہ انھوں نے ملک کے سب سے مقبول سیریل ’رامائن‘ میں بھگوان رام کا کردار نبھایا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مقامی باشندہ اوشا گویل کہتی ہیں کہ خواتین انہیں ہی ووٹ دیں گی اور ای وی ایم کو ہاتھ جوڑ کر پرنام بھی کریں گی۔ لیکن یہ نظریہ کچھ خواتین کا ہی ہے۔ عآپ لیڈر راجن جاٹو کا کہنا ہے کہ اس بار میرٹھ سیٹ بی جے پی کے ہاتھ سے جانے والی ہے۔
Published: undefined
اس لوک سبھا سیٹ پر بی جے پی امیدوار ڈاکٹر مہیش شرما سے گوجر طبقہ انتہائی ناراض ہے۔ ٹھاکر طبقہ میں بھی زبردست ناراضگی دیکھنے کو مل رہی ہے۔ گوجر طبقہ انڈیا اتحاد کے امیدوار مہندر ناگر کے ساتھ کھڑا نظر آتا ہے۔ ٹھاکر طبقہ بی ایس پی امیدوار راجندر سولنکی کے ساتھ دکھائی دیتا ہے۔ دونوں طبقات کی آبادی 4 لاکھ سے زیادہ ہے۔ ایسے میں مسلم طبقہ جس کے ساتھ جائے گا، اس کو کامیابی مل جائے گی۔ بی ایس پی والے راجندر سولنکی کو 2.5 لاکھ دلت طبقہ کا بھی ساتھ مل رہا ہے، اس لیے وہ سماجوادی پارٹی کے امیدوار سے بہتر حالت میں ہے۔ راجپوت سماج کی کی حالیہ سرگرمیوں کو دیکھتے ہوئے بی ایس پی یہاں بہتر کرتی ہوئی دکھائی دے رہی ہے۔
Published: undefined
بی جے پی کے ذریعہ جنرل وی کے سنگھ کا ٹکٹ کاٹے جانے کے بعد گوتم بدھ نگر میں ناراضگی کا اثر نظر آ سکتا ہے، لیکن غازی آباد میں نہیں۔ کانگریس اتحاد نے یہاں ڈالی شرما کو امیدوار بنایا ہے۔ ڈالی شرما بہت قابل اور اچھی امیدوار ہیں۔ عآپ کا بھی غازی آباد میں اچھا اثر ہے۔ یادو ووٹ کی تعداد بھی کافی ہے۔ ڈالی شرما بلاشبہ اچھی لڑائی لڑیں گی، لیکن یہاں انڈیا اتحاد ٹھاکر امیدوار اتارتا تو بات کچھ الگ ہی ہوتی۔ بی ایس پی نے یہاں ایک بار جیت حاصل کی ہے۔ اس نے نند کشور پنڈیر کو میدان میں اتارا ہے۔ غازی آباد میں بی جے پی بہت بڑے فرق سے جیتتی رہی ہے۔ اس بار بھی وہ آگے ہے، لیکن جیت کا فرق کافی کم ہو سکتا ہے۔
Published: undefined
یہاں براہ راست مقابلہ بی ایس پی اور بی جے پی میں ہے۔ انڈیا اتحاد کی طرف سے یہاں امیدوار کانگریس نے اتارا ہے۔ اکھلیش یادو جب گوتم بدھ نگر میں ان کی حمایت میں تشہیر کرنے پہنچے تھے تو ایک بھی لیڈر ان کا نام نہیں لے پایا تھا۔ شیورام والمیکی اے آئی سی سی رکن ہیں۔ بلند شہر کی کاص بات یہ ہے کہ اس سیٹ سے دو موجودہ اراکین پارلیمنٹ آمنے سامنے ہیں۔ بی ایس پی کے گریش چندر نگینہ سے رکن پارلیمنٹ ہیں۔ بی جے پی کے بھولا سنگھ 2 بار کے رکن پارلیمنٹ ہیں۔ 2019 میں یہاں بی ایس پی نے یوگیش ورما کو لڑایا تھا۔ ان کی بیوی میرٹھ سے سماجوادی پارٹی کی ٹکٹ پر کھڑی ہوئی ہیں۔
Published: undefined
علی گڑھ میں سماجوادی پارٹی کے بجیندر سنگھ اور بی جے پی کے ستیش گوتم کے درمیان انتخابی جنگ ہے۔ بجیندر سنگھ 4 مرتبہ رکن اسمبلی اور ایک مرتبہ رکن پارلیمنٹ رہے ہیں۔ دوسرے مرحلہ کی 8 لوک سبھا سیٹوں میں سے یہ واحد سیٹ ہے جس پر سماجوادی پارٹی جیت حاصل کر سکتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بی ایس پی نے یہاں بنٹی اپادھیائے کو امیدوار بنایا ہے۔ بنٹی کی وجہ سے انتخاب سہ رخی بن گیا ہے جس کے سبب سماجوادی پارٹی کو تھوڑا سا فائدہ نظر آ رہا ہے۔ چونکہ بنٹی اپادھیائے بھی بی جے پی چھوڑ کر آئے ہیں، اس لیے مسلمانوں کا رخ بجیندر سنگھ کی طرف ہے۔ وہ جاٹ لیڈر ہیں اور اس کا بھی انھیں فائدہ ملتا نظر آ رہا ہے۔ ستیش گوتم اور بنٹی اپادھیائے دونوں ہی برہمن ہیں۔ رکن پارلیمنٹ ستیش گوتم سے عدم اطمینان بنٹی کو مضبوط کر رہا ہے۔
Published: undefined
یہ این ڈی اے اتحاد میں شامل آر ایل ڈی کے کوٹہ میں گئی سیٹ ہے۔ جینت چودھری نے یقیناً یہاں سے اچھا امیدوار اتارا ہے۔ راج کمار سانگوان اس سیٹ سے آر ایل ڈی امیدوار ہیں جو کہ ایک سماجی کارکن ہیں۔ سماجوادی پارٹی نے یہاں سے امرپال شرما کو انتخابی میدان میں اتارا ہے اور گزشتہ دو دنوں میں ان کی گرفت اس انتخاب پر کمزور ہوئی ہے۔ بی ایس پی نے اس سیٹ سے پروین بیسلا گوجر کو امیدوار بنایا ہے۔ اپوزیشن کے حق میں ووٹ ڈالنے والے ووٹرس کو یہاں سماجوادی پارٹی اور بی ایس پی میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہوگا تبھی مقابلہ دلچسپ ہوگا، ورنہ یکطرفہ لڑائی دیکھنے کو ملے گی۔
Published: undefined
اس سیٹ سے کنور دانش علی اس مرتبہ مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں۔ مقامی لوگوں کے مطابق ان کا رویہ ان کے لیے پریشانی کھڑے کر رہا ہے۔ امروہہ ایک الگ مزاج کا شہر ہے۔ کوئی خود کو کسی سے چھوٹا نہیں سمجھتا۔ احمد خان کہتے ہیں کہ دانش علی اس بات کو سمجھ ہی نہیں پائے کہ سبھی خود کو شہنشاہ سمجھتے ہیں۔ ان کی کامیابی کے لیے اکھلیش اور راہل کو پوری طاقت لگانی پڑ رہی ہے۔ دوسری طرف بی جے پی امیدوار کنور سنگھ تنور کی فتحیابی کے لیے مودی-یوگی زور لگا رہے ہیں۔ بی ایس پی لیڈر مجاہد حسین بھی اس سیٹ سے طاقت آزمائی کر رہے ہیں۔ نوگاؤں کے اشرف قریشی کا کہنا ہے کہ ’’بی جے پی امیدوار تھوڑا آگے دکھائی دے رہا ہے۔ دانش علی آدمی ٹھیک ہے، لیکن انھیں مراد آباد سے لڑنا چاہیے تھا۔‘‘
Published: undefined
مقامی اور باہری امیدوار کا مسئلہ متھرا سیٹ پر زور و شور سے اٹھ رہا ہے۔ انڈیا اتحاد یہاں زبردست مقابلہ دے رہا ہے۔ مکیش دھنگر انڈیا اتحاد کے امیدوار ہیں۔ اس وقت عوام میں ہیما مالنی کے تئیں ناراضگی ہے۔ حالانکہ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ ہیما باہر کی ہیں تو کیا فرق پڑتا ہے، مودی جی نے ہی تو ان کو انتخاب لڑنے بھیجا ہے۔ سریش یادو کا کہنا ہے کہ سیاست کی حالت یہ ہو گئی ہے کہ جس جینت چودھری کو ہیما مالنی نے شکست دی تھی، وہی جینت چودھری اب ہیما مالنی کو کامیاب کرنے کے لیے زور لگا رہے ہیں۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز