قومی خبریں

ونیش اور پونیا نے تابوت میں آخری کیل ٹھونک دی... سہیل انجم

ونیش پھوگاٹ اور بجرنگ پونیا کی کانگریس میں شمولیت نے ہریانہ میں بی جے پی کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک دی۔ ان دونوں کے کانگریس جوائن کرنے سے بی جے پی پر بوکھلاہٹ طاری ہو گئی ہے۔

<div class="paragraphs"><p>ونیش پھوگاٹ اور بجرنگ پونیا&nbsp;راہل گاندھی کے&nbsp;ساتھ / تصویر بشکریہ ایکس</p></div>

ونیش پھوگاٹ اور بجرنگ پونیا راہل گاندھی کے ساتھ / تصویر بشکریہ ایکس

 

ونیش پھوگاٹ اور بجرنگ پونیا کی کانگریس میں شمولیت نے ہریانہ میں بی جے پی کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک دی۔ ان دونوں کے کانگریس جوائن کرنے سے بی جے پی پر بوکھلاہٹ طاری ہو گئی ہے۔ اس کے لیڈر اول جلول باتیں کرنے لگے ہیں۔ بلکہ بعض تو دھمکیوں پر اتر آئے ہیں۔ کشتی فیڈریشن کے سابق صدر اور جنسی استحصال کے الزامات کا سامنا کرنے والے سابق رکن پارلیمنٹ برج بھوشن شرن سنگھ نے نہ صرف ان دونوں کے خلاف بلکہ کانگریس کے خلاف بھی بیان بازی شروع کر دی ہے۔ انھوں نے اپنے خلاف خاتون پہلوانوں کے احتجاج میں کانگریس کی سازش تلاش کر لی ہے۔ انھوں نے یہ بے بنیاد الزام لگایا ہے کہ کانگریس نے ہی ان کے خلاف تحریک چلوائی تھی۔ اسے کہتے ہیں دھول چہرے پر ہے اور الزام آئینوں پر لگایا جا رہا ہے۔

Published: undefined

حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ ایک غیر سیاسی تحریک تھی۔ جب پہلوان پہلی بار دہلی کے جنتر منتر پر بیٹھے تھے تو انھوں نے کسی بھی سیاسی رہنما کو وہاں پھٹکنے تک نہیں دیا تھا۔ جب کمیونسٹ پارٹی کی رہنما برندا کرات وہاں پہنچ گئیں تو پہلوانوں نے ان سے معذرت کی اور انھیں واپس کر دیا۔ ان کا خیال تھا کہ حکومت برج بھوشن کے خلاف سنگین الزامات پر کارروائی کرے گی۔ اگر کسی سیاسی پارٹی کا کوئی لیڈر وہاں پہنچا تو دھرنے کو سیاسی رنگ دے دیا جائے گا۔ لیکن حکومت خاموش رہی۔ پولیس نے بھی ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی۔ بلکہ اس نے تو ان پہلوانوں کو جنھوں نے عالمی مقابلوں میں تمغے جیت جیت کر ملک کا نام روشن کیا تھا، سڑکوں پر گھسیٹا تھا۔ جب پہلوانوں نے دیکھا کہ حکومت کوئی کارروائی کرنے کے بجائے برج بھوشن کو بچا رہی ہے تب انھوں نے سیاست دانوں کو اس منچ پر آنے کی اجازت دی تھی۔ لیکن اب برج بھوشن کہہ رہے ہیں کہ اس دھرنے کے پیچھے کانگریس کا ہاتھ تھا۔

Published: undefined

دراصل یہ ہریانہ میں شکست کا ڈر ہے جو اس قسم کے بیانات دلوا رہا ہے۔ وہاں دس سال سے بی جے پی کی حکومت ہے۔ پہلے منوہر لال کھٹر کھٹارہ حکومت چلا رہے تھے اور کے بعد ان کی جگہ پر نائب سنگھ سینی کو وزیر اعلیٰ بنایا گیا۔ کھٹر سرکار نے گڑگاؤں کے پارکوں میں جمعہ کی نمازوں پر ہونے والے ہنگاموں کے آگے جھکتے ہوئے نمازوں پر پابندی لگا دی اور اب سینی صاحب گو رکشکوں کے ہاتھوں ایک بے قصور مسلمان کی جان لینے کے جرم کا دفاع کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ دیہاتی لوگوں میں گائے کے تئیں عقیدت کا جذبہ ہے اس لیے وہ مشتعل ہو گئے۔ حالانکہ مشتعل ہونے کی کوئی بات نہیں تھی۔ مغربی بنگال کے کباڑی صابر ملک کا کوئی قصور نہیں تھا۔ ان کو مارنے کے لیے ان پر بیف کھانے کا الزام لگایا گیا۔ حالانکہ بیف تو بہت سے ہندو بھی کھاتے ہیں۔ لیکن ان سے نہیں پوچھا جاتا کہ تم کیا کھاتے ہو۔ مسلمان آسان ہدف ہیں اس لیے ان کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔

Published: undefined

برج بھوشن شرن کا بیان ہو یا نائب سنگھ سینی کا یہ دونوں بیانات ریاستی انتخابات میں بی جے پی کی شکست کی جانب اشارہ کر رہے ہیں۔ یہ لوگ ایسے بیانات دے کر ایک تو کانگریس کے خلاف ایک ماحول بنانا چاہتے ہیں اور دوسرے مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیزی کو ہوا دے کر ہندوؤں کے ایک طبقے کا ووٹ لینا چاہتے ہیں۔ حالانکہ اب یہ دونوں باتیں ہونے والی نہیں ہیں۔ نہ تو کانگریس کو بدنام کرنے کی کوئی سازش کامیاب ہو سکتی ہے اور نہ ہی مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیزی کو ہوا دینے کی کوئی کوشش۔ ہریانہ کے عوام نے اسمبلی انتخابات میں بی جے پی کو دھول چٹانے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ ان دس برسوں میں ریاست میں نفرت انگیزی کے علاوہ کوئی کام نہیں ہوا۔ لیکن اب عوام بیدار ہو چکے ہیں۔ وہ بی جے پی کی چالوں کو سمجھ گئے ہیں۔ اب وہ اس قسم کی سازشوں کے شکار بننے والے نہیں ہیں۔ پارلیمانی انتخابات اس کا ثبوت پیش کر چکے ہیں۔

Published: undefined

اگر 2019 کے اسمبلی انتخابات کے نتائج پر نظر ڈالیں تو پائیں گے کہ 90 رکنی اسمبلی میں این ڈی اے کے پاس 42 سیٹیں تھیں جن میں بی جے پی کی سیٹیں 40 تھیں۔ کانگریس کے پاس 28 سیٹیں تھیں۔ اور اگر انڈیا اتحاد کی بات کریں تو اس کی سیٹیں 30 تھیں۔ اسی طرح دشینت چوٹالہ کی جن نائک جنتا پارٹی یعنی جے جے پی نے دس نشستیں جیتی تھیں۔ بی جے پی اور جے جے پی نے ریاست میں مخلوط حکومت بنائی تھی۔ لیکن اب وہاں کا سیاسی منظرنامہ بڑی حد تک تبدیل ہو چکا ہے۔ جے جے پی کے سات ارکان کانگریس اور بی جے پی میں شامل ہو گئے ہیں۔ ریاست میں اس وقت سب سے مضبوط پوزیشن کانگریس کی ہے۔ ہریانہ کی سیاست پر جن خاندانوں کی بالادستی رہی ہے ان میں اب صرف کانگریس کے بھوپیندر سنگھ ہڈا ہی ایسے سیاست داں ہیں جن کی گرفت اب بھی بہت مضبوط ہے۔ ورنہ باقی جتنے بھی سیاسی خاندان تھے سب کے اثرات زائل ہو چکے ہیں۔

Published: undefined

اس وقت وہاں بی جے پی ایک ایسی پارٹی ہے جس کے ساتھ کوئی بھی پارٹی اتحاد کرنے کو تیار نہیں ہے۔ جے جے پی نے چندر شیکھر آزاد کی پارٹی آج سماج پارٹی (اے ایس پی) سے اتحاد کیا ہے۔ لیکن اس اتحاد کو کوئی خاص کامیابی ملنے کا امکان نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ چندر شیکھر آزاد کا وہاں کوئی اثر نہیں ہے اور جے جے پی کے دشینت چوٹالہ کی پوزیشن بہت خراب ہو گئی ہے۔ کسان تحریک اور پہلوانوں کی تحریک کے دوران انھوں نے جو خاموشی اختیار کی اس کی وجہ سے عوام ان سے ناراض ہیں۔ انڈین نیشنل لوک دل (آئی این ایل ڈی) کی بھی پوزیشن اچھی نہیں ہے۔ 2019 کے اسمبلی الیکشن میں اسے صرف ایک سیٹ ملی تھی۔ صرف ابھے چوٹالہ کامیاب ہوئے تھے۔ اس بار آئی این ایل ڈی نے بی ایس پی کے ساتھ انتخابی اتحاد کیا ہے۔ اس کا مقصد دلت ووٹ حاصل کرنا ہے۔ لیکن بی ایس پی کی جو سیاست اترپردیش میں رہی ہے اور جس طرح مایاوتی نے بی جے پی کی درپردہ مدد کی اس کی وجہ سے ہریانہ میں بھی بی ایس پی کی کوئی امیج نہیں رہ گئی ہے۔ دشینت چوٹالہ بھی بی جے پی کے ساتھ مخلوط حکومت میں شامل رہنے کی وجہ سے اپنی سیاسی زمین کھو چکے ہیں۔

Published: undefined

ہریانہ، پنجاب اور مغربی اترپردیش جاٹوں اور کسانوں کے علاقے ہیں۔ پارلیمانی انتخابات میں ان تینوں جگہوں پر بی جے پی کو زبردست نقصان ہوا ہے۔ واضح رہے کہ مرکزی حکومت نے کارپوریٹ کے دباؤ میں تین ایسے زرعی قوانین پارلیمنٹ سے منظور کرائے تھے جن کی ضرب کسانوں پر پڑ رہی تھی اور ان قوانین کا فائدہ بڑے تجارتی گھرانوں کو ہو رہا تھا۔ کسانوں نے ان قوانین کے مضر اثرات کا اندازہ لگا کر ان کی واپسی کے مطالبہ کی تحریک شروع کی۔ ایک سال سے زائد عرصے تک یہ تحریک چلی۔ جس کے دوران تقریباً ساڑھے سات سو کسانوں کی موت ہوئی۔ حکومت کی جانب سے کسانوں کی تحریک کو کچلنے کی بہت ظالمانہ کوشش کی گئی۔

ان کو خالصتانی اور دہشت گرد قرار دے کر بدنام کرنے کی بھی کوشش کی گئی۔ ان پر غیر ملکوں سے اور ملک دشمن طاقتوں سے فنڈ حاصل کرنے کا الزام لگایا گیا۔ لیکن بہرحال کسان اپنی جگہ پر ڈٹے رہے۔ انھوں نے حکومت کی تمام تر سختیاں برداشت کیں لیکن قدم پیچھے نہیں ہٹائے۔ جس کے نتیجے میں بالآخر حکومت کو جھکنا پڑا اور تینوں قوانین واپس لینے پڑے۔ اس تحریک نے ہریانہ اور پنجاب میں بی جے پی کی پوزیشن خراب کر دی۔ اس کا احساس وزیر اعظم مودی، وزیر داخلہ امت شاہ اور دوسرے رہنماؤں کو بھی ہے۔ اسی لیے حکومت کی جانب سے ایسے اقدامات کیے جا رہے ہیں جن سے کھوئی ہوئی زمین واپس مل سکے۔ لیکن تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اس الیکشن میں بی جے پی کی کامیابی تقریباً ناممکن ہے۔

Published: undefined

صرف کسانوں کی تحریک سے ہی بی جے پی کو نقصان نہیں پہنچا بلکہ پہلوانوں کی تحریک سے بھی پہنچا ہے۔ اس معاملے میں حکومت اور اس کے اشارے پر پولیس کا جو رویہ رہا اس سے یہ واضح ہوا کہ حکومت خواتین کی عزت کی محض باتیں ہی باتیں کرتی ہے۔ حقیقت میں اس کے نزدیک خواتین کے عزت و احترام کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ اس نے پوری تحریک کے دوران برج بھوشن شرن سنگھ کی پشت پناہی کی۔ جب حکومت کی زیادہ بدنامی ہونے لگی تب کہیں جا کر ان سے کشتی فیڈریشن کے صدر کے عہدے سے استعفیٰ لیا گیا۔ لیکن اس کے باوجود فیڈریشن پر ان کے بقول ان کا دبدبہ قائم رہا۔ پارلیمانی انتخابات کے دوران بھی بی جے پی نے ان کے ساتھ رعایت کا معاملہ کیا۔ وہ اس طرح کہ اگر چہ ان کو ٹکٹ نہیں دیا گیا لیکن ان کے بیٹے کو ان کی نشست قیصر گنج سے ٹکٹ دیا گیا اور وہ کامیاب ہوئے۔ اس تحریک نے حکومت سے کسانوں اور جاٹوں کی ناراضگی میں مزید اضافہ کر دیا۔

ادھر ونیش پھوگاٹ اور بجرنگ پونیا کے کانگریس جوائن کرنے سے کانگریس میں تو خوشی کا ماحول ہے ہی ہریانہ کے عوام میں بھی ہے۔ انھوں نے اس بار یہ طے کر لیا ہے کہ وہ بی جے پی کو سبق سکھا کر دم لیں گے۔ تاکہ آئندہ کوئی بھی حکومت کسانوں اور خواتین کے خلاف اس طرح سینہ سپر ہونے کی جراْت نہ کر سکے۔ البتہ یہ دیکھنا دلچسپ ہوگا کہ بی جے پی کی شکست کس درجے کی ہوتی ہے۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined