میرا نپور: 8 سال قبل وجے کے والد اچانک سے اس دنیا کو چھوڑ کر چلے گئے۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ انھوں نے خودکشی کی تھی۔ وجے کہتا ہے وہ آج تک نہیں جانتا میرے پاپا کیوں مر گئے۔ اپنی بیمار ماں کا حال بے حال دیکھ کر وجے (24) اپنے قصبے میں لگاتار لوگوں سے اپنی شادی کرائے جانے کی گزارش کرتا تھا۔ لیکن یتیم ہونا اور غریب ہونا دونوں ہی اس کی شادی میں رکاوٹ کھڑی کر رہے تھے۔ مطلبی دنیا میں اس کی مدد کے لیے کوئی آگے نہیں آیا لیکن اتر پردیش پولس اس کے لیے مددگار بن کر سامنے آئی۔ مظفر نگر کی میرانپور پولس نے دھوم دھام سے اس کی شادی کرائی اور یہ کام اتر پردیش پولس کی شبیہ سے بالکل برعکس ہے۔ یہ شادی انتہائی دھوم دھام سے ہوئی اور تھانے کا مکمل پولس عملہ شریک ہوا۔ بینڈ باجے کے ساتھ بارات سجی اور اس شادی میں علاقے کے سبھی معزز شہریوں کو بلایا گیا۔ پولس تھانے کے اندر شاندار دعوت بھی ہوئی اور ناچ گانا بھی ہوا۔
Published: undefined
وجے اس سلسلے میں بتاتے ہیں کہ پھیرے کے دوران پنڈت جی نے پوچھا کہ لڑکی کا والد کون ہے؟ چونکہ لڑکی بھی یتیم تھی اس لیے پیچھے بیٹھے انسپکٹر اروند کمار سنگھ نے کہا’’میں لڑکی کا والد ہوں۔‘‘ اس کے بعد پوچھا گیا کہ لڑکے کا والد کون ہے؟ اس کے جواب میں ایس ایس آئی جتندر یادو نے کہا ’’میں لڑکے کا والد ہوں۔‘‘
وجے مزید کہتے ہیں کہ ’’کون کہتا ہے پولس والوں میں نرم دل نہیں ہوتا۔ وقت آ جائے تو ان کا دل بھی سونے کا معلوم ہوتا ہے۔‘‘ وہ بتاتے ہیں کہ اتنی شاندار شادی ہوئی کہ میرے پیسے والے رشتہ دار بھی دیکھتے رہ گئے۔ ان کے دل میں حسد پیدا ہوگیا اور میری ماں کے کلیجے میں ٹھنڈک۔ اس شادی کے روح رواں تھے اروند کمار یعنی میرا نپور تھانے کے انچارج۔ وہ ہمیں بتاتے ہیں کہ ’’وجےشادی کے لیے کہتا تھا۔ ایک دن اس کی ماں آئی، وہ بہت بیمار لگ رہی تھی اور کافی بوڑھی ہو چکی تھی۔ اس وقت مجھے وجے کے بارے میں یہ سب پتہ چلا۔ میں نے اسے سنجیدگی سے لیا۔ وہ غریب بھی ہے اور ناخواندہ بھی اور اس کا اپنا گھر بھی نہیں ہے۔ ایسی حالت میں کون اس سے شادی کرتا۔ میں نے مقامی لوگوں سے بات کی۔ پاس کے گاؤں کے ایک شخص نے اپنی سالی سے شادی کرانے کے لیے حامی بھری۔ لڑکی بھی یتیم ہے۔ اس کے والد کی ذمہ داری نبھانے کا ذمہ میں نے اٹھایا اور ہمارے ایس ایس آئی جتندر یادو نے وجے کے والد کا کردار نبھایا۔‘‘
Published: undefined
وجے بہت خوشی کے ساتھ بتاتا ہے کہ ان کی شادی میں پاپولر بینڈ بج رہا تھا۔ پاپولر بینڈ یہاں ’امیروں کا بینڈ‘ کہا جاتا ہے۔ اس کے مالک محبوب عالم نے اس کے لیے کوئی پیسہ نہیں لیا بلکہ اپنی طرف سے جوڑے کو تحفہ بھی دیا۔ وہ ہم سے کہتے ہیں ’’اتر پردیش میں ہزاروں بڑی شادیوں میں شرکت کے باوجود اتنی خوشی انھیں کہیں اور نہیں ملی۔‘‘
دراصل وجے تھانے میں ملازمت کرتا ہے۔ یہاں اس کا کام تھانے میں آنے والوں کو پانی پلانا ہے اور وہ تھانہ انچارج کے ذاتی کام بھی دیکھتا ہے۔ وجے گزشتہ چار سال سے میرا نپور تھانے میں کام کرتا ہے اور اپنی ضعیف ماں کا درد دیکھ کر وہ اکثر شادی کی گزارش کرتا رہا ۔ اس طرح کی گزارش وہ اپنے رشتہ داروں سمیت کئی لوگوں سے کر چکا تھا لیکن اسے کہیں سے مثبت پیغام نہیں ملا۔
وجے کی ایک بہن بھی ہے جس کی شادی ہو چکی ہے۔ اس کے والد ایک کرانہ کی دکان میں ملازمت کرتے تھے اور 5 ہزار روپے مہینہ کماتے تھے۔ انھوں نے زندگی بھر جو کمایا وہ سب اپنی بیٹی کی شادی میں لگا دیا لیکن وہ اکلوتے بیٹے وجے کے لیے گھر نہیں بنا سکے۔ وجے کی فیملی ایک ہزار روپے مہینہ کرایہ دے کر ایک چھوٹے سے گھر میں رہتی ہے۔ بیمار ماں کے ساتھ تنہا رہ رہا وجے (24) کی شادی اتر پردیش پولس کے اچھے کام کی دلیل بن گئی۔ محروم اور سماج کے نچلے طبقے کے نوجوان کے تئیں پولس کی محبت گہری تاریکی میں ایک روشنی کی مانند ہے۔
Published: undefined
وجے کی ماں 67 سالہ سشما دیوی نے جب اپنے بیٹے کو گھوڑے پر دولہا بنے دیکھا تو وہ بے تحاشہ رونے لگی۔ خاص بات یہ ہے کہ ان کے بیٹے کی شادی میں انھیں مدعو کیا گیاتھا۔ وجے کے والد کا کردار نبھانے والے سب انسپکٹر جتندر یادو کہتے ہیں ’’پولس ہمیشہ ’کھلنایک‘ نہیں ہوتی بلکہ کئی بہت اچھے کام بھی کرتی ہے، لیکن ہم اپنا سینہ چیر کر نہیں دکھا سکتے۔‘‘
یہ شادی اچانک سے موضوعِ بحث بن گئی ہے۔ اس کے لیے خرچ کا انتظام پولس اسٹاف نے آپس میں پیسہ اکٹھا کر کے کیا۔ شادی کا سامان بھی پولس نے خود دستیاب کرایا، جیسے کہ خاتون کانسٹیبل کے گروپ نے دولہا و دلہن کو کرسی و میز تحفے میں دی اور دلہن کے لیے زیورات کا انتظام بھی پولس نے کیا۔ اتنا ہی نہیں، بارات میں ناچتے گاتے پولس والوں نے سماں باندھ دیا۔ ڈپٹی ایس پی ایس کے ایس پرتاپ بھی اس شادی میں شامل ہوئے۔ انھوں نے بات چیت کے دوران کہا کہ ’’یہ شادی کسی بھی طرح سے خانہ پری نہیں تھی بلکہ انسپکٹر میرا نپور نے بے حد دلچسپی کے ساتھ پورا انتظام کیا۔ دلہن کو تحفے دیے گئے اور ایک اچھی شادی کی گئی۔ یہ ایک بہترین کوشش رہی جس کی حوصلہ افزائی ہونی چاہیے۔ اس سے سماج میں پولس کی عزت میں بھی اضافہ ہوا ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز