پرتاپ گڑھ : مائنارٹیز ویلفیئر سوسائٹی کے صدر مولانا تاجدار احمد نے کہا کہ وہ سپریم کورٹ کے فیصلے کا احترام کرتے ہیں مگر فیصلہ عقیدے (آستھا)کی بنیاد پر قانون کے برعکس ہے۔انہوں نے ’یواین آئی‘ سے بات چیت کرتے ہوئے مذکورہ تاثرات کا اظہار کیا۔
Published: undefined
مولانا تاجدار نے کہا کہ فیصلہ خود یہ ظاہر کر رہا ہے کہ عدالت نے ملک کو بچانے کے لئے درمیانی راستہ اختیار کیا۔ سنّی وقف بورڈ کا عتراض تھا کہ 1949 میں مورتی غلط طریقے سے رکھی گئی اور بابری مسجد کو طاقت کے زور پر منہدم کیا گیا۔عدالت عالیہ نے سنی وقف بورڈ کے دعوی کو تسلیم کرتے ہوئے مورتی رکھنے و مسجد انہدام کو غیر قانونی قرار دیا۔
Published: undefined
مائناریٹیز سوسائٹی کے صدر نے بات چیت کے دوران واضح لفظوں میں کہا کہ مسجد جہاں ایک مرتبہ تعمیر ہو جاتی ہے وہ تا قیامت تک مسجد رہتی ہے۔انھوں نے کہا کہ عدالت نے نرموہی اکھاڑے کے مقدمہ کو خارج کر دیا اور رام کی پیدائش کی جگہ ثابت نہیں ہو پائی۔اس طرح سارے ثبوت مندر کے خلاف تھے۔اس سے یہی پیغام جا رہا ہے کہ عدالت عالیہ نے اکثریت کے جذبات کا خیال رکھتے ہوئے صرف ملک کو بچانے کیلئے فیصلہ مندر کے حق میں دے کر مسجد کو اراضی دینے کا حکم دیا ہے۔
Published: undefined
مولانا تاجدار کا کہنا ہے کہ عدالت عالیہ نے 1949 سے قبل مسجد کے وجود کو تسلیم کیا کہ وہاں نماز پڑھی جاتی تھی۔ آثار قدیمہ کی رپورٹ کو پوری طرح صحیح نہیں مانا جا سکتا لیکن فیصلہ اسی بنیاد پر مالکانہ حق ایک فریق کو دے دیا گیا۔ عدالت عالیہ کے فیصلے کا مسلمانوں نے احترام کرتے ہوئے پوری طرح صبرو تحمل کا مظاہرہ کیا۔انہوں نے خاص طور سے ایک بات یہ کہی کہ فیصلہ جو ہونا تھا ہو گیا لیکن اندیشہ ہے کہ کل کو کاشی و متھرا کی آواز اٹھ سکتی ہے اور پھر ایک مرتبہ ملک کو امتحان سے گزرنا پڑ سکتا ہے۔ملک میں امن امان رہے اسی میں ملک و قوم کا مفاد ہے۔یکجہتی و خیر سگالی ہی ملک کا مزاج ہے جس کو بنائے رکھنا ہم سب کی ذمہ داری ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز