ڈمرو لے کر ڈولے کاشی
ہولے ہولے بولے کاشی...
کاشی کا یہ ڈولنا ہی اس کا اپنا مزاج ہے۔ کب کسی پر ڈول جائے یا پھر کب کسی سے ڈول جائے۔ انتخاب کی تاریخ جیسے جیسے قریب آتی جا رہی ہے بنارس اپنی موج میں آتا جا رہا ہے۔ اڑیاں، چائے پان کی دکانیں، بازار یا پھر چکلس کرتی بھیڑ کی آواز میں تلخی آنے لگی ہے۔ اب وہ نعرے کا ساتھ دینے کی جگہ خاموش ہو کر اپنی نااتفاقی کا اظہار کرنے لگی ہے۔
Published: 16 May 2019, 8:10 PM IST
خاص طور پر مودی-مودی کے نعرے پر تو مزید خاموش دیکھنے کو مل رہی ہے۔ اب ان ٹھکانے پر بحث مباحثے کی تاثیر بھی بدلنے لگی ہے جہاں مودی کے علاوہ کوئی نہیں تھا۔ یکایک بدلتے منظرنامے کے پیچھے وزیر اعظم نریندر مودی کی زبان ہے جس نے انھیں مشکل میں ڈال دیا ہے۔
Published: 16 May 2019, 8:10 PM IST
کاشی کے من کی بات یہاں کے اڑیوں سے جانی جا سکتی ہے۔ اَڑی کا مطلب ایسی جگہ جہاں صبح شام باضابطہ طور پر کچھ لوگ جمع ہوتے ہوں۔ ان میں زیادہ تر لوگ پڑھے لکھے یا پھر دانشور قسم کے ہوتے ہیں جو ملک و دنیا کی باتوں پر اپنا بے باک تبصرہ پیش کرتے ہیں۔ بنارس میں ایسی جگہ کو ٹھیہا بھی کہتے ہیں۔
Published: 16 May 2019, 8:10 PM IST
گودولیا، دشاشومیدھ، چوک، میداگن، لہورابیر اور اسّی لنکا کی اڑیاں مشہور رہی ہیں۔ ان پر عام لوگوں سے لے کر بڑے بڑے لیڈر، پروفیسر، ڈاکٹر، انجینئر، اداکار اور صحافی تک موجود رہتے ہیں۔ اڑیاں دراصل بنارس کی نبض ہوتی ہیں۔ شہر کے اندر کیا چل رہا ہے، یہ جاننے کے لیے سب سے آسان راستہ ہے اس نبض کو ٹٹولنا۔
Published: 16 May 2019, 8:10 PM IST
اس درمیان وزیر اعظم کی جانب سے ایس پی-بی ایس پی اتحاد اور کانگریس پر کیے جا رہے زبانی حملے اڑیوں کی بحث کا مرکز رہے۔ میداگن کی اڑی پر شیو کمار، گنیش یادو اور پرکاش بابو بنارسی انداز میں بات چیت کرتے نظر آتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں ’’دیکھا گرو، ای بنارس ہے، یاں کوئی کا آتما ناہی دُکھاوت۔ مودی بابا راجیو گاندھی پر بول کے ٹھیک ناہی کئیلن۔ ارے بھائی جے دنیا میں ہو ناہی اوکے للکارے کا کا مطلب بھئیل۔ اے بات سے پھرک پڑی۔ سہی پوچھا تا بنارس کا من ڈولے لاگل ہو۔ اگر کہیں کاشی ڈمرو لے کے ڈول گئیل تہ لیوے کے دیوے پڑ جائی۔‘‘
Published: 16 May 2019, 8:10 PM IST
یہ سچ ہے کہ مودی کے حالیہ بیانات نے اپوزیشن کو ہی نہیں خود بی جے پی اور آر ایس ایس کے خیمے کو بھی حیرت میں ڈال دیا ہے۔ بی جے پی کی ایک خاتون کارکن نے نام مخفی رکھنے کی گزارش کے ساتھ کہا کہ وزیر اعظم کی زبان ٹھیک نہیں۔ آر ایس ایس کے ایک کارکن کا تو یہاں تک کہنا تھا کہ مودی جی کے بڑبولے پن سے پارٹی اور آر ایس ایس کی سنجیدگی پر بٹّا لگ رہا ہے۔ انھوں نے حیران کر دینے والی جانکاری دی کہ آر ایس ایس کے ایک گروپ نے سچ پوچھیے تو الیکشن سے ہی کنارا کر لیا ہے۔
Published: 16 May 2019, 8:10 PM IST
آر ایس ایس کے کارکن کی اس بات میں دم اس لیے بھی لگ رہا ہے کہ انتخابی تشہیر میں بڑھ چڑھ کر شراکت داری کرنے والے آر ایس ایس اس بار کم ہی میدان میں نظر آ رہے ہیں۔ ایک دوسرے بی جے پی کارکن نے بتایا کہ سچ پوچھیے تو آر ایس ایس کے لوگوں اور بی جے پی کے پرانے کارکنان مودی کی نامزدگی کے دن ہی مایوس ہو گئے تھے جب ان کی جگہ پر گجرات سے آئے لوگوں نے محاذ سنبھال لیا تھا۔
Published: 16 May 2019, 8:10 PM IST
دشاشو میدھ کی اَڑی پر کچھ ایسی ہی بات چیت میں مشغول ملتے ہیں۔ راجہ سیٹھ، ونے سنگھ، شبھاشیش اور بدری۔ یہاں بھی مودی جی کے جملے اور بے روزگاروں سے پکوڑا تلنے کی بات پر ہنگامہ مچا ہوا تھا۔ اس طرح کے ہنگامے کی تعداد میں اضافے کو لے کر سرکاری ملازم سنتوش کمار کا کہنا ہے کہ اسے ہلکے میں لیا جانا ٹھیک نہیں، آپ اسے بدلاؤ کی دستک کہہ سکتے ہیں۔
Published: 16 May 2019, 8:10 PM IST
اَڑیوں سے ہٹ کر ہاٹ بازار میں بھی مباحثوں نے پرواز بھرنی شروع کر دی ہے۔ ان میں ہر جگہ مودی-مودی کی بحث سب سے زیادہ نشانے پر ہے۔ وندنا شرما استاذ ہیں اور مانتی ہیں کہ زیادہ تر جگہوں پر یہ نعرہ چند لوگوں کی جانب سے اسپانسر کیا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ دوسرے سیاسی مخالفین ایک دوسرے کو چِڑھانے کے مقصد سے بھی اس کا استعمال کر رہے ہیں۔ وہ اس برتاؤ کو جمہوریت کے لیے مضر مانتی ہیں۔
Published: 16 May 2019, 8:10 PM IST
بازار میں اٹھنے بیٹھنے والے کم پیسے والے اور چھوٹے تاجر نوٹ بندی کے بعد اپنے کاروبار کے برباد ہونے کا حوالہ دینے سے نہیں جھجک رہے۔ بہت سے ایسے لوگ ہیں جو بی جے پی کے لوگوں کا سامنا نہ ہو جائے، اس بات سے بھی پرہیز کر رہے ہیں۔
Published: 16 May 2019, 8:10 PM IST
کاشی اپنے ’سَرو دھرم سنبھاؤ‘ کی وجہ سے ہی سب کی چہیتی رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ ’دھرم نگری‘ ہوتے ہوئے بھی کبھی کٹر نہیں ہو پائی۔ سادھو-سنتوں کی ایک بڑی جماعت کاشی کے اس مزاج کی قیادت کرتی ملتی ہیں۔ لیکن وہ یہ بھی نہیں چاہتی کہ کوئی اس کے اقدار سے کھلواڑ کرے۔
Published: 16 May 2019, 8:10 PM IST
کاشی کے سادھو سنتوں کی ایک جماعت نے مودی کے ڈریم پروجیکٹ کاریڈور اور اس سے جڑی کارروائی کو دل پر لے رکھا ہے۔ اس جماعت کی مخالفت کو بھی بی جے پی حکومت میں ہلکے ڈھنگ سے لیا گیا۔ کاریڈور تعمیر میں دیوی دیوتاؤں کی مورتیوں کا ٹوٹنا، کئی مندروں کا انہدام، کئی فیملیوں کا بے روزگار ہونا، بے دخل ہو جانا مقامی ایشوز کے طور پر لوگوں کے ذہن سے باہر آ رہے ہیں۔
Published: 16 May 2019, 8:10 PM IST
سوامی اویمکتیشورانند نے تو تحریک ہی کھڑی کر رکھی ہے۔ کانگریس نے بھی ٹوٹے مندروں کو بنوانے کی بات کر ایشو کو گرم کر دیا ہے۔ مودی کی جانب سے یہ کہا جانا کہ کاریڈور بنوا کر انھوں نے بھولے بابا کو مُکت کر دیا ہے، بھی خاصہ گرم ہے۔ کھانٹی کاشی باشندہ اس بات کو ہضم نہیں کر پا رہا۔
Published: 16 May 2019, 8:10 PM IST
کاریڈور تعمیر میں جن ریہڑی والوں یا دکانداروں کی روزی روٹی چھن گئی یا وہ کسی ناانصافی کے شکار ہوئے، ان کا درد ناقابل بیان ہے۔ ان سب کی تنہائی پر لڑائی لینے والے کرشن کمار شرما کا ماننا ہے کہ انتخاب میں ان کی آہ ضرور رنگ لے آئے گی۔ اس طرح دیکھا جائے تو مودی کی انتخابی ڈگر کو ایکدم سے آسان نہیں کہا جا سکتا۔
Published: 16 May 2019, 8:10 PM IST
یہ درست ہے کہ مودی کے مقابلے کوئی ایسی شخصیت نہیں ہے، لیکن اتحاد اور مخالف تال ٹھونک کر کہہ رہے ہیں کہ اس بار کے نتائج پوروانچل سمیت بنارس کو بھی حیران کر سکتا ہے۔
(ہمانشو اپادھیائے کی رپورٹ)
Published: 16 May 2019, 8:10 PM IST
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 16 May 2019, 8:10 PM IST
تصویر سوشل میڈیا
تصویر: پریس ریلیز