اتر پردیش کو ’بھگوا پردیش‘ بنانے کی راہ پر گامزن یوگی حکومت نے ’اتر پردیش صوبہ حج کمیٹی‘ کی دیواروں کی بھی بھگواکاری کر دی ہے۔ پہلے یہ دیواریں ہرے رنگ میں رنگی ہوئی تھیں لیکن جمعہ کو یہ کیسریا نظر آنے لگی۔ یو پی حکومت کے اس قدم سے مسلم طبقہ میں غصے کی لہر پھیل گئی ہے۔ کئی علماء نے بھی اس قدم کی سخت مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت اس طرح کی حرکتوں سے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے کا کام کر رہی ہے۔
دیوبند سے تعلق رکھنے والے مولانا ندیم المجیدی سے جب حج ہاؤس کی دیوار کو ہرے کی جگہ کیسریا رنگ سے رنگنے پر رد عمل جاننے کی کوشش کی گئی تو انھوں نے ناراضگی کے ساتھ ساتھ حیرانی بھی ظاہر کی اور کہا کہ ریاستی حکومت کسی خاص مذہب کے جذبات کے ساتھ کھلواڑ کس طرح کر سکتی ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’’مجھے لگتا ہے کہ یہ فیصلہ مناسب نہیں ہے کیونکہ بھگوا رنگ کسی خاص مذہب کی پہچان ہے جب کہ حج ہاؤس کا تعلق مذہب اسلام سے ہے۔ اس لیے حکومت کو ایسا کچھ نہیں کرنا چاہیے جس سے مسلم طبقہ کے جذبات کو ٹھیس پہنچے۔‘‘ مولانا ندیم المجیدی نے مزید کہا کہ موجودہ اتر پردیش حکومت ہندو اور مسلم دونوں کی مشترکہ کوششوں سے بنی ہے اس لیے اس کو دونوں ہی مذاہب کے جذبات اور مفاد کا خیال رکھنا چاہیے۔‘‘
Published: undefined
لکھنؤ کے باپو بھون کے سامنے واقع اتر پردیش صوبہ حج کمیٹی کی دیواروں کا رنگ بدلنے کے بعد پیدا شدہ تنازعہ کے بعد ریاست کے اقلیتی امور کے وزیر محسن رضا نے اپنا ایک بیان ضرور جاری کیا ہے لیکن اس سے مسلم تنظیموں کی ناراضگی بدستور جاری ہے۔ محسن رضا نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ ’’اس طرح کی چیزوں پر تنازعہ پیدا کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ کیسریا رنگ توانائی کی علامت ہے اور چمکدار ہونے کی وجہ سے عمارتوں پر اچھا لگتا ہے۔ حزب مخالف کے پاس ہمارے خلاف کوئی بڑا ایشو نہیں ہے اس لیے وہ غیر ضروری ایشوز اٹھاتے ہیں۔‘‘
بہر حال، حج ہاؤس کی دیواروں کا رنگ کیسریا ہونے کی خبریں سوشل میڈیا پر زور و شور سے وائرل ہو رہی ہیں اور مسلم طبقہ سے تعلق رکھنے والے لوگ اپنی برہمی کا اظہار بھی کر رہے ہیں۔ ذرائع کے مطابق دیوار کو کیسریا رنگ میں رنگنے کا فیصلہ اقلیتی فلاح بورڈ کی جانب سے جاری کیا گیا تھا جس کی مذمت حج ہاؤس سے تعلق رکھنے والے علماء اور اپوزیشن پارٹیاں بھی کر رہی ہیں۔
واضح رہے کہ عمارتوں کی بھگواکاری کا عمل اکتوبر 2017 سے شروع ہوا تھا جب وزیر اعلیٰ دفتر پر کیسریا رنگ چڑھایا گیا تھا۔ اس کے بعد دسمبر مہینے میں پیلی بھیت کے 100 سے بھی زائد پرائمری اسکولوں کو اسی رنگ کا جامہ پہنایا گیا تھا جس کی وہاں کے اساتذہ نے بھی مخالفت کی تھی لیکن گاؤں کے سرپنچ نے کسی کی نہیں سنی۔ اس کے بعد یکے بعد دیگرے کئی عمارتوں کو اسی رنگ میں رنگ دیا گیا۔ اس سے قبل سرکاری بسوں پر بھی کیسریا رنگ چڑھایا گیا تھا۔ اب تو حالت یہ ہے کہ ریاست میں سرکاری کاموں کے دوران بھی بھگوا یعنی کیسریا رنگ کا استعمال زور و شور سے کیا جانے لگا ہے۔ وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کی رہائش گاہ اور دفتر میں استعمال ہونے والا تولیہ بھی کیسریا رنگ کا نظر آنے لگا ہے۔ علاوہ ازیں سرکاری تقاریب میں صرف انہی پنڈال کا استعمال کیا جاتا ہے جن کا رنگ کیسریا ہو۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز