نئی دہلی: اترپردیش پرائمری ٹیچر بھرتی معاملے میں الہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف شکشامتروں کی اپیل کی سماعت کے دوران پہلے تو سپریم کورٹ نے عرضی خارج کرنے کا زبانی حکم سنا دیا، لیکن چند منٹ بعد ہی پھرسے سماعت کرتے ہوئے ترمیمی حکم کے ساتھ ریاستی حکومت نے نوٹس جاری کیا۔
Published: undefined
جسٹس اودے امیش للت، جسٹس ایم ایم شانتن گودر اورجسٹس وینیت سرن کی بنچ نے عرضی گزار ’اترپردیش پرائمری شکشامتر ایسوسی ایشن‘ کی جانب سے پیش سینئر وکیل مکل روہتگی کی دلیلں سننے کے بعد عرضی خارج کرنے کا زبانی حکم سنا دیا، لیکن کچھ قانونی پہلوؤں پر توجہ دلائے جانے کے بعد سماعت پھر سے شروع ہوگئی۔
Published: undefined
سینئروکیل دشینت دوے اور اے سدنرم ویڈیا کانفرنسنگ اسکرین پر زبانی حکم جاری ہونے کے بعد دکھائی دیئے اور انہوں نے اپنی دلیلیں شروع کیں۔ اس کے بعد عدالت نے عرضی خارج کرنے کے اپنے زبانی حکم میں ترمیم کی منشا ظاہر کی۔ سماعت پھرسے کچھ دیر بعد شروع ہوئی اور سالیسیٹر جنرل اور دیگر وکیلوں کی دلیلیں سننے کے بعد عدالت نے ریاستی حکومت اور دیگر عرضی گزاروں کو نوٹس جاری کیا اور اس کے جواب کے لئے 14 جولائی تک کا وقت دیا۔ عدالت نے ریاستی حکومت کو ہدایت دی کہ وہ چھ جولائی تک خالی اسامیوں کا چارٹ عدالت کو سونپ دے۔
Published: undefined
سماعت کے شروع میں عرضی گزاروں کی جانب سے روہتگی نے دلیل دی کہ سنگل بنچ نے عرضی گزاروں کے دعوے کی حمایت میں فیصلہ کیا تھا، لیکن بنچ نے شکشا متروں کا موقف پوری طرح نہیں سنا۔انہوں نے کہا کہ شکشا متروں کا مطالبہ ان کے ٹھیکے کے رینیو کے سلسلے میں بھی ہے اور تقرری کے عمل میں مسلسل کی گئی تبدیلی کے سلسلے میں بھی۔ جسٹس للت نے روہتگی سے پوچھا، ’’کتنے انسٹرکٹرس کی تقرری ہوئی تھی؟‘‘
Published: undefined
روہتگی نے جواب دیا ،30 ہزار۔ریاستی حکومت نے انسٹرکٹرس کے بجائے 69000 پرائمری ٹیچروں کی نئی بھرتی نکالی۔ امتحان کے بعد نیا کٹ آف بھی طے کیا۔ لیکن ان کی دلیلوں سے غیر مطمئین بنچ نے عرضی خارج کرنے کا زبانی حکم سنایا۔ تھوڑی دیر میں دوے اور سدنرم کے اسکرین پر دکھنے کے بعد حالات پلٹ گئے اور بنچ کو اپنا زبانی حکم فی الحال ٹالتے ہوئے سماعت دوبارہ شروع کرنی پڑی۔
Published: undefined
بنچ نے کہا کہ اس معاملے میں اتنے موقف ہیں کہ ان سبھی کو ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعہ سننا مشکل ہوگا۔جسٹس للت نے کہا،’ہم معاملے میں کوئی عبوری حکم یا حالات برقرار رکھنے کا حکم جاری نہیں کریں گے۔ایسا حکم جاری کرنے سے پہلے ہمیں مطمئین ہونا ہوگا اور ابھی ہم کسی بھی دلیل سے مطمئین نہیں ہوئے ہیں۔
Published: undefined
کچھ شکشا متروں کی جانب سے سینئر وکیل گوپال سبرمنیم نے دلیلیں دینی شروع کیں۔ انہوں نے شکشا متروں کی تعریف اور حکمت عملی بتائی۔ انہوں نے ہائی کورٹ کی سنگل بنچ اورآئینی بنچ کے فیصلوں کی قانونی باریکیاں کورٹ کو بتائیں۔ دوے نے عرضی گزارشکشا متر سنجیو تیواری کی جانب سے دلیل دی۔
Published: undefined
انہوں نے اپنے موئکل کے پچھلے ڈیڑھ دہائی سے پڑھانے کا دعوی کیا۔ انہوں نے کہا کہ 69 ہزار ٹیچروں کی بھرتی کے اشتہار میں کٹ آف کا ذکر نہیں تھا۔ اب عدالت نے مہتا سے پوچھا، ’’میرٹ کے نام پردیگر اصول کیوں بدلے؟ انہوں نے کہا کہ وہ کل اس سلسلے میں حکومت سے ہدایت لے کر عدالت کو بتائیں گے۔
Published: undefined
اس کے بعد عدالت نے کہا، ’’ہم پھر سبھی عرضی گزاروں پر نوٹس جاری کر رہے ہیں۔ ہم یہ بھی دیکھیں گے کہ تقرری کے عمل کے اصول امتحان سے پہلے یا بعد میں بدلنا کتنا صحیح یا غلط ہے۔‘‘اس دوران سینئر وکیل راجیو دھون نے دلیل دی کہ امتحان کے نتیجہ 40 اور 45 فیصدی کے میرٹ کی بنیاد پر ہی پھر سے جوڑے جائیں۔ ایسا کیوں کہ پہلے امتحان کسی اور بنیاد پر اور دوسرے کسی اور بنیاد پر؟ اس پر مہتا نے کہا کہ یہ لوگ باصلاحیت امیدواروں پر کم صلاحیت والوں کو قابض چاہتے ہیں۔
Published: undefined
اس کے بعد عدالت نے اترپردیش حکومت اور دیگر کو نوٹس جاری کیے، اور اس کے جواب کے لئے 14 جولائی کی تاریخ مقرر کی۔ ریاستی حکومت یہ بتائے کہ 45 فیصد عام اور ریزرو کوٹے کے لئے 40 فیصد کی بنیاد کو کیوں بدلا گیا؟ ریاستی حکومت چھ جولائی تک چارٹ کے ذریعہ سارے مرحلے اور تفصیل بتائے۔ وکیل گورو یادو کی جانب سے دائر اس عضی میں الہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلے پر روک لگانے یا اسے منسوخ کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
Published: undefined
اس سے پہلے ریاستی حکومت کی طرف سے سپریم کورٹ میں ایک کیوئیٹ داخل کی گئی تھی،جس میں کہا گیا تھا کہ سپریم کورٹ اس کا موقف سنے بغیر الہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف دائر عرضی پر کوئی حکم جاری نہ کرے۔اس معاملے میں الہ آباد ہائی کورٹ کی لکھنؤ بنچ نے اپنا فیصلہ سنایا تھا۔ اس کے بعد ریاست میں بیسک ایجوکیشن کونشل کے اسکولوں میں اسسٹنٹ ٹیچروں کی بھرتی کا راستہ صاف ہوگیا تھا۔ اترپردیش میں ٹیچروں کی بڑے پیمانے پر ہونے والی بھرتی لٹکی ہوئی تھی۔ ایسا کٹ آف مارکس سے متعلق تنازع کی وجہ سے تھا۔ اس معاملے میں الہ آباد ہائی کورٹ نے ریاستی حکومت کے کٹ آف بڑھانے کے فیصلے کو صحیح بتایا تھا۔ اس کے علاوہ اس بھرتی عمل کو تین مہینے کے اندر پورا کرنے کا حکم بھی دیا تھا۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined