اپنے یوگی جی پرسوں (یکم اگست) اسمبلی میں خوب گرجے۔ بالکل اسی مٹی میں ملا دینے والے انداز میں۔ معاملہ گومتی نگر کا تھا جہاں کچھ آوارہ گردوں کے ذریعے ایک لڑکی کو چھیڑنے کو واقعہ پیش آیا ہے۔ اس واقعے کے تناظر میں اپنے بابا جی اسمبلی میں جم کر دہاڑ رہے تھے۔ وہ ان ملزمین کے حوالے سے ’بلیٹ‘ یعنی کہ انکاؤنٹر کا ذکر کر رہے تھے، مگر تان ان کا بلڈوزر پر تھا۔ ان کی باتوں سے ایسا لگ رہا تھا کہ ریاست میں انصاف اور امن و امان کی برقراری کا واحد دار و مدار بلڈوزر اور انکاؤنٹر پر ہے اور مجرمین کے خلاف یہ کارروائی بہت ضروری ہے۔ اسمبلی میں یوگی جی کی دہاڑ کو دیکھ کر اگر کوئی 2006 میں پارلیمنٹ کی ان کی دھاڑیں مار کر روتی ہوئی ویڈیو دیکھ لے تو وہ قدرت کے اس قاعدہ کلیہ پر ایمان لائے بغیر نہیں رہ سکتا کہ ہر شخص کا وقت ضرورت آتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ کچھ لوگ اس ملے ہوئے وقت میں فرعونیت کا شیوہ اختیار کر لیتے ہیں۔
Published: undefined
یوگی جی نے اپنی تقریر کے دوران کہا کہ ’’آپ کو بلڈوزر سے خوف آتا ہے لیکن یہ بے گناہوں کے لیے نہیں ہے، یہ ان مجرموں کے لیے ہے جو ریاست کے نوجوانوں کے مستقبل سے کھیلتے ہیں، جو تاجروں اور بیٹیوں کی حفاظت میں رخنہ ڈالتے ہیں، اور جو انارکی پیدا کر کے عام لوگوں کی زندگی کو عذاب بناتے ہیں۔ میں یہاں نوکری کرنے نہیں آیا ہوں، میں یہاں آیا ہوں کہ اگر وہ جرم کریں گے تو ہم ان سے نبردآزما ہوں گے‘‘۔ یہ باتیں سن کر بھلا کون ہوگا جو جرائم کے روک تھام کے تئیں یوگی جی کی نیت پر شک کر سکے؟ بلکہ یہ بیان تو ان لوگوں میں یوگی جی کی مقبولیت میں اضافہ بھی کر دے گا جو ان کی اس ’کتھنی‘ کو ان کی ’کرنی‘ سمجھ رہے ہیں۔ مگر جو لوگ یوگی جی سے واقف ہیں، وہ ان کے پاکھنڈ و بد دیانتی کو محسوس کیے بغیر نہیں رہے ہوں گے۔
Published: undefined
سب سے پہلی بددیانتی کا مظاہرہ یوگی جی نے ملزمین کا نام بتانے میں کیا۔ انہوں نے دو لوگوں کے نام بتائے جن پر اس چھیڑ خانی کے واقعات میں ملوث ہونے کا الزام ہے۔ اس میں ایک کا نام پون یادو اور دوسرے کا نام محمد ارباز ہے۔ یہ نام سن کر ہر کسی کے ذہن میں یہی تاثر پیدا ہوا ہوگا کہ اس گھناؤنے جرم کے پسِ پشت یادو اور مسلم ہیں جو مبینہ طور پر بی جے پی مخالف ہیں۔ سچ پوچھئے تو ان دونوں ناموں کے ذریعے یوگی جی یہی تاثر پیدا بھی کرنا چاہتے تھے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو ان دو ملزمین کے ساتھ مزید ۱۴ ملزمین کے بھی نام لیتے جو اس گھناؤنے واقعے میں ملوث ہونے کے الزام میں گرفتار کیے گئے ہیں ۔ مگر انہوں نے ایسا نہیں کیا اور صرف دو ایسے ملزمین کا نام لیا جن کی بنیاد پر ایک خاص پارٹی یعنی کہ سماجوادی پارٹی اور ایک خاص طبقہ یعنی کہ مسلمان کو موردِ الزام ٹھہرایا جا سکے۔
Published: undefined
پنجابی زبان کی ایک کہاوت ہے ’پاپ بڑیری تے چڑھ کے بولدا اے‘۔ یعنی جرم بلندی پر چڑھ کر اپنی موجودگی کا اعلان کرتا ہے۔ یوگی جی کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔ ادھر انہوں نے ایک یادو اور ایک مسلمان کا نام لے کر اپنی عصبیت والی سیاست کی گاڑی میں ایندھن ڈالا ہی تھا کہ سوشل میڈیا پر لوگوں نے اس گاڑی کو پنکچر کرنا شروع کر دیا۔ اسمبلی میں ان کی تقریر کی ویڈیو شیئر کرتے ہوئے لوگوں نے ان دو ناموں کے ساتھ مزید ۱۴ نام پیش کرنے شروع کر دیئے، جو چھیڑ خانی کے اس معاملے میں ملوث تھے۔ کانگریس کی ترجمان سپریا شرینیت سمیت نے بھی ’ایکس‘ پر اسے پوسٹ کیا ہے۔ ان ۱۴ لوگوں میں ساہو، اگرہری، گپتا، شرما، بھنڈاری اور تیواری جیسی برادریوں کے لوگ شامل ہیں، جن کے بارے میں عام تاثر یہی ہے کہ یہ بی جے پی کے بہت مضبوط ووٹرس ہیں۔
Published: undefined
سوشل میڈیا پر ان ناموں کے پیش کرنے ہو یہ رہا ہے کہ یوگی جی دو ملزموں کے ناموں کے ذریعے جو تیر چلائے تھے، اس سے خود ان کے ہی لوگ زخمی ہو رہے ہیں۔ لیکن اگر یہ بات سوشل میڈیا تک ہی محدود رہتی تو اسے اپوزیشن کی مہم کہہ کر نظر انداز کیا جا سکتا تھا، مگر مصیبت یہ ہوئی کہ جس وقت یوگی جی اسمبلی میں گرج رہے تھے، اسی دوران سماجوادی کی ایک خاتون رکن اسمبلی نے کھڑے ہو کر یوگی جی کے جرائم کے روک تھام کے تئیں ان کے کھوکھلے دعوے کو بے نقاب کر دیا۔ یہ خاتون رکن اسمبلی کوئی اور نہیں بلکہ وجما یادو تھیں، جن کے شوہر جواہر یادو کو ۱۹۹۶ میں الہ آباد (پریاگ راج) کے سول لائنز دن دہاڑے گولی مار کر قتل کر دیا گیا تھا۔ جواہر یادو کوئی عام شخص نہیں تھے بلکہ وہ سماجوادی پارٹی کے رکن اسمبلی تھے۔ اس قتل کے الزام میں عدالت سے اودئے بھان کروریا کو عمر قید کی سزا ہوئی، جسے یوگی حکومت نے نے 25 جولائی 2023 جیل سے رہا کروا دیا۔
Published: undefined
جس اسمبلی میں یوگی آدتیہ ناتھ گرج رہے تھے، اسی اسمبلی میں اُس ایم ایل اے کی بیوی، وجما یادو، انصاف کی گہار لگا رہی تھی۔ وجما یادو نے اسمبلی میں بتایا کہ وہ 18 سال تک انصاف کے لیے بھٹکتی رہیں اور آخر کار 2019 میں عدالت نے چار مجرموں کو سزا دی۔ یوگی آدتیہ ناتھ کی حکومت نے وقت سے پہلے کروریا کو رہا کروا دیا۔ ایسا بھی نہیں ہے کہ مجرموں پر یوگی جی کی عنایت یہ صرف جواہر یادو کے معاملے میں نظر آتی ہے؟ بلکہ یہ ہر اس معاملے میں نظر آتی ہے جہاں ملزم یا مجرم کا تعلق بی جے پی یا اس کے نظریات سے نہیں ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر عتیق احمد اور محد اشرف کے ہی معاملے میں دیکھا جاسکتا ہے جنہیں عین پولیس کی حراست میں قتل کر دیا جاتا ہے اور دوسری جانب برج بھوشن شرن سنگھ، چنمیا نند جیسے لوگ ہیں جو یو گی حکومت کا تحفظ حاصل ہے۔ یوگی جی کا معاملہ سب سے دلچسپ ہے جو خود پر سے ہی فسادات کے مقدمات ختم کروا دیئے۔
Published: undefined
لکھنؤ کے چھیڑخانی کے گھناؤنے واقعے کے تناظر میں یوگی جی کے بلڈوزر کی دھمکی سے اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ اس سے مجرموں میں قانون کا کوئی خوف پیدا ہوگا؟ تو یہ سوچنا بھی عبث ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مجرموں کو معلوم ہے کہ یوگی جی کی پولیس کی کارروائی یا ان کا بلڈوزر ایک خاص طبقے یا خاص سیاسی نظریے کے حاملین کے خلاف ہوتا ہے۔ مجرمین یہ بات بخوبی سمجھتے ہیں کہ اگر ان کا تعلق بی جے پی یا یوگی سے ہے تو ان کا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ پھر اگر وہ کسانوں پر اپنی ایس یو وی چڑھا کر دندناتے پھریں، سماجوادی کے لیڈران کو گولیوں سے بھونیں یا کسی کی بہو بیٹی کی عزت و آبرو لوٹ لیں انہیں حکومت کی سرپرستی حاصل رہے گی۔ یہی وجہ ہے کہ یوگی جی کے دورِ حکومت میں اترپردیش ایک ایسے جنگل راج میں تبدیل ہو چکا ہے جہاں ایک خاص قسم کے جانوروں کو کھلی چھوٹ ملی ہوئی ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز