تصویر: جشن ریختہ کے دوران جاوید جعفری سے گفتگو کرتیں اتیکا فاروقی (<a href="https://twitter.com/Rekhta">@Rekhta</a>)
”زبان کے زندہ رہنے کے لیے ٹیکسٹ ضروری ہے۔ کتابیں، رسائل یہ سب زبان کو فروغ دیتی ہیں۔ لیکن اب انٹرنیٹ گیم چینجر ہو گیا ہے۔ کتابیں اور لائبریری جل سکتی ہیں لیکن انٹرنیٹ نہیں۔ جو کچھ اردو میں لکھ دیا گیا ہے اور انٹرنیٹ پر موجود ہے وہ ہمیشہ زندہ رہے گا، اس لیے اردو زبان کے مرنے کی بات نہیں کہی جا سکتی۔ یہ زبان اب تاقیامت زندہ رہے گی۔ اردو خطرے میں نہیں قطرے قطرے میں شامل ہے۔ زندگی کے ہر شعبہ حیات میں اردو موجود ہے۔“ یہ باتیں بالی ووڈ کے مشہور و معروف مزاحیہ اداکار جاوید جعفری نے جشن ریختہ کے دوسرے دن منعقد پروگرام ’رومانسنگ اُردو‘ میں کہیں۔ انھوں نے اپنے مزاحیہ انداز میں اُردو کی کئی خوبیوں کو بیان کیا اور یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی کہ آخر اُردو لوگوں کے درمیان اب بھی کیوں موجود ہے۔
Published: 16 Dec 2018, 12:05 PM IST
پروگرام میں اتیکا فاروقی کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے جاوید جعفری نے کہا کہ اُردو صرف ایک زبان نہیں ہے بلکہ یہ مکمل تہذیب کا نام ہے۔ آج اُردو زبان تو زندہ ہے لیکن تہذیب کئی مواقع پر ختم ہوتی ہوئی معلوم ہوتی ہے۔ مثلاً پہلے جب کسی کے سامنے اس کے والد آتے تھے تو وہ احتراماً کھڑا ہو جاتا تھا، یہ تھی اُردو تہذیب۔ لیکن اب لڑکا ’ہائے ڈیڈ‘ کہتا ہوا نظر آتا ہے۔ مزاحیہ اداکاری سے لوگوں کادل جیتنے والے جاوید جعفری اُردو کے تلفظ سے متعلق بات کرتے ہوئے کہا کہ ”اس کی شیرینی اس کے تلفظ میں ہے اور بہت سے لوگ اُردو بولنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن ق، ز اور خ جیسے حروف کی ادائیگی نہیں کر پاتے لیکن انھیں اُردو اچھی لگتی ہے اس لیے کوشش ضرور کرتے ہیں۔“ انھوں نے اپنے مخصوص انداز میں حاضرین کو بتایا کہ اکثر لوگ ’خدا‘ کو ’کھُدا‘ کہتے ہیں اور میں نے کسی موقع پر اس تعلق سے ایک شعر کہا تھا جو اس طرح ہے:
یہاں بھی کھُدا ہے وہاں بھی کھُدا ہے
جہاں کھُدا نہیں ہے وہاں کل کھُدے گا
Published: 16 Dec 2018, 12:05 PM IST
جاوید جعفری نے اُردو کو لوگوں کے لیے ایک بہترین تحفہ قرار دیا۔ انھوں نے کہا کہ ”یہ زبان کئی زبانوں سے مل کر بنی ہے اور حقیقت تو یہ ہے کہ اس زبان کا وجود ہی لوگوں کو جوڑنے کے لیے بنا تھا، یہ الگ بات ہے کہ آج ملک میں توڑنے کا ماحول بن رہا ہے۔“ جاوید جعفری نے بالی ووڈ میں اُردو کے استعمال کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ ایک وقت تھا جب ڈائیلاگ میں اُردو کا استعمال بہت ہوتا تھا اور نغموں میں اُردو الفاظ خوب شامل ہوتے تھے۔ جس نفاست سے شاعروں نے اس زبان کا استعمال فلمی نغموں کے لیے کیا تھا وہ قابل تعریف ہے۔ لیکن اب وہ تہذیب کہیں پیچھے چھوٹتی ہوئی محسوس ہو رہی ہے۔ ’ٹن ٹنا ٹن ٹن ٹن ٹارہ، چلتی ہے کیا نو سے بارہ‘ جیسے نغمے چلتے ضرور ہیں لیکن یہ نہ ہی معیاری ہیں اور نہ ہی آپ کے دل کو سکون پہنچانے والے۔ پرانے نغمے آج بھی خوب سنے جاتے ہیں اور اس کی وجہ اس میں موجود شیرینی ہے، اُردو الفاظ ہیں۔
Published: 16 Dec 2018, 12:05 PM IST
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 16 Dec 2018, 12:05 PM IST
تصویر: پریس ریلیز