نئی دہلی: اردو زبان میں جو مٹھاس ہے وہ دوسری اور کسی زبان میں دیکھنے کو نہیں ملتی اسی وجہ سے یہ زبان اپنی مثال آپ ہے۔ اسی خوبی کی وجہ سے غیر اردو داں طبقہ اپنے دل میں اردو زبان کو سیکھنے کا اشتیا ق رکھتا ہے۔ اردو اکادمی دہلی کی جانب سے منعقد جشن وراثت اردو کے دوسرے دن (11 نومبر) اردو زبان وادب سے دلچسپی رکھنے والوں کی کثیر تعداد نظر آئی، اردو کے پروگراموں کے علاوہ یہاں دیگر اسٹال بھی لگے ہوئے ہیں۔جس میں پرانی دہلی کی کیلی گرافی کا بھی ایک اسٹال لگا ہوا ہے، اس اسٹال پر کیلی گرافی کے بار ے میں پوری تفصیلات و معلومات آپ کو مل جائیں گی۔
Published: 13 Nov 2018, 8:09 PM IST
قومی آواز کے نمائندہ نے کیلی گرافر (خطاط) اور گلوکار سید صلا ح الدین سے بات کی تو انھوں نے بتایا کہ دہلی حکومت کی جانب سے وراثت میلہ کا انعقاد کیا گیا ہے اور ہم نے یہاں پرانی دہلی کیلی گرافی کا ایک اسٹال لگایا ہے۔ ہم لوگوں کو یہ بتانا چاہتے ہیں کہ روایتی کیلی گرافی ہوتی کیا ہے، کیلی گرافی کا اصل مقصد و مطلب کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’آپ اپنا نام دن میں ہزار مرتبہ لکھتے ہوں گے لیکن جب اسی نام کو کوئی کیلی گرافر اپنے اندازمیں لکھے گا تو وہ ہزار ناموں میں منفرد نظر آئے گا، اسی کو کیلی گرافی کہتے ہیں۔ اس کو ہندی میں کہتے ہیں ’سندر لیکھن‘ اوراردو میں اسے خطاطی کہتے ہیں۔ اس کو خوش نویسی، کتابت وغیرہ بھی کہا جاتا ہے۔‘‘
سید صلاح الدین کا کہنا ہے کہ ’’ہم اس اسٹال کے ذریعہ لوگوں کو یہ بھی بتانا چاہتے ہیں کہ قلم کیا ہوتا ہے۔ کیونکہ نوجوانوں کو قلم کے بارے میں زیادہ معلومات نہیں ہے کیونکہ قلم کی جگہ پین نے لے لی ہے۔ چونکہ پین بیرون ممالک سے درآمد ہو رہے ہیں ان کا خط انگلش کے حساب سے ہوتا ہے یعنی ان انگریزی انداز کے قلموں کا خط بالکل سیدھا ہوتا ہے۔ ہم جو قلم استعمال کرتے ہیں اس کی شکل آج کے قلم سے مختلف ہوتی ہے۔ قلم میں جو خط لگا ہوتا ہے جس کو ہم کٹ بھی کہہ سکتے ہیں۔ اردو اور ہندی کے حساب سے قلم میں الگ الگ کٹ (خط) لگائے جاتے ہیں اور انگریزی کے لئے سیدھا خط لگایا جاتا ہے۔‘‘
Published: 13 Nov 2018, 8:09 PM IST
کیلی گرافی کی بغل میں ’پرانی دہلی والوں کی باتیں‘ نام سے اسٹال لگا ہوا ہے جس میں پرانی دہلی کی تہذیب و تمدن اور پرانی دہلی میں استعمال ہونے والے محاوروں کے بارے میں آپ کو تفصیل سے معلومات مل جائیں گی۔ ’پرانی دہلی والو ں کی باتیں‘ کے بانی ابو سفیان سے ’قومی آواز‘ کے نمائندہ نے اردو زبان کے حوالے سے بات کی تو انھوں نے بتایا کہ ’پرانی دہلی والوں کی باتیں‘ کا جو اسٹال ہے اس کا فوکس شاہجہاں آباد اور اردو کلچر ہے۔ دراصل ہمارے پاس اردو کا قدیم ترین سرمایہ موجود ہے جس میں پرانی کتابیں بھی ہیں جو تقریباً تین یا چارسو سال پرانی ہیں۔ اس کے علاو ہ ہم نے نسل نو (یوتھ) کو اردو سے جوڑنے کے لئے کچھ نئے پروڈکٹ بھی ڈیزائن کئے ہیں جس میں ایسے بیچز شامل ہیں جن میں معروف شاعروں کے اشعار لکھے ہوئے ہیں۔ اس طرح کی چیزوں سے نوجوان نسل اردو کے تئیں راغب ہوتی ہیں۔ غیر اردوداں طبقہ کے لیے ہم نے انگریزی اسکرپٹ استعمال کیا ہے اور اسی کو اردو، ہندی تینوں زبانوں میں لکھاہے۔سفیان مزید بتاتے ہیں کہ جب کوئی غیر اردو داں شخص اپنا نام اردو میں لکھا ہوا دیکھتا ہے تو وہ حیران ہو جاتا ہے کہ آخر یہ کیا لکھا ہوا ہے۔ وہ اردو کیلی گرافی کو دیکھ کر حیران ہو جاتے ہیں کیونکہ یہ دیکھنے میں انتہائی خوبصورت لگتی ہے۔ اردو کیلی گرافی میں غیر اردو داں طبقہ کو اپنا نام بھی انتہائی خوبصورت نظر آتا ہے۔ اپنا نام انتہائی خوبصورت انداز میں لکھا ہوا دیکھ کر ان کے دل میں اردو سیکھنے کا اشتیاق پیدا ہوتا ہے اور وہ اردو کی طرف متوجہ ہوتے ہیں ۔
Published: 13 Nov 2018, 8:09 PM IST
ابو سفیان نے بتایا کہ غالب کے اشعار پر مبنی بیچز کی ایک سیریز نکالی گئی ہے اور ان کے علاوہ میر تقی میر، داغ وغیرہ کے اشعار پر مبنی بیچز بھی موجود ہیں۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ ’’اردو کے تیئں دل سے کنیکشن ہونا چاہیے اور اس کو ہم نے اس اسٹال کے ذریعہ سے جوڑنے کی کوشش کی ہے۔ اس آئیڈیا کو کافی لوگ پسند بھی کر رہے ہیں۔‘‘ اسٹال پر کئی شاعروں کے کلام پلیٹوں پر بھی لکھے ہوئے نظر آتے ہیں جو کافی دلکش لگتے ہیں۔ کچھ پوسٹر بھی یہاں موجود تھے جن پر اہم شعرا کی غزلیں لکھی ہوئی تھیں۔ یہ پورا نظارہ اردو تہذیب و تمدن کی بہترین عکاسی کر رہی تھی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ چائے کی پیالی پر شاعروں کی تصویریں اور اشعار بھی چھپے ہوئے نظر آئے۔
’جشن وراثت اردو‘ میلہ میں آئے ہوئے انکت نے اپنا تجربہ بیان کرتے ہوئے ’قومی آواز‘ کو بتایا کہ ’’میرے کچھ دوست اردو جانتے تھے، انھوں نے ایک مرتبہ میرا نام اردو میں لکھ کر دیا جو مجھے کافی پسند آیا۔ پہلے میں سمجھتا تھا کہ اردو ہندوستان سے باہر کی کوئی زبان ہے۔ لیکن جب مجھے معلوم ہوا کہ یہ ہندوستان کی ہی زبان ہے، تو اس سے دلچسپی بڑھ گئی۔ اب میں اس زبان کو سیکھنے کی کوشش کر رہا ہوں اور اردو کے پروگراموں میں بھی جاتا ہوں۔‘‘ انکت کچھ پوسٹرس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتا ہے کہ ’’کسی بھی چیز کو سیکھنے کے لئے ماحول کی ضرورت ہوتی ہے اور یہاں خاص بات یہ ہے کہ جو پوسڑ یہاں لگے ہوئے ہیں ان میں ایک ہی بات ہندی اور اردو دونوں زبان میں لکھی ہوئی ہے جس سے کم اردو جاننے والوں کو کافی آسانی ہوتی ہے۔‘‘
Published: 13 Nov 2018, 8:09 PM IST
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 13 Nov 2018, 8:09 PM IST
تصویر: پریس ریلیز