قومی خبریں

’زی نیوز‘ کے اینکر کو گرفتار کرنے پہنچی چھتیس گڑھ پولیس کو یوپی پولیس نے روکا، کانگریس کی تنقید

جئے رام رمیش نے کہا کہ ’’یہ کون سا گٹھ جوڑ ہے جس کا پردہ فاش ہونے سے بی جے پی ڈر رہی ہے؟ بی جے پی کیوں نہیں چاہتی کہ فرضی خبر اور جھوٹی صحافت کے ایسے پیروکاروں کی ذمہ داری طے کی جائے؟‘‘

جے رام رمیش، تصویر آئی اے این ایس
جے رام رمیش، تصویر آئی اے این ایس 

کانگریس کے سابق صدر راہل گاندھی کے خلاف فرضی خبر چلانے کے ملزم ’زی نیوز‘ کےاینکر روہت رنجن کو گرفتار کرنے پہنچی چھتیس گڑھ پولیس کو یوپی پولیس نے روک دیا۔ چھتیس گڑھ پولیس کا الزام ہے کہ ’’گرفتاری عمل میں لائی جا رہی تھی... (جب) مقامی پولیس ملزم کو اپنے ساتھ لے گئی اور گرفتاری کے عمل میں رخنہ ڈال دیا، حالانکہ چھتیس گڑھ پولیس نے انھیں وارنٹ کی کاپی دکھائی تھی۔‘‘

Published: undefined

اس معاملے کو لے کر کانگریس نے یوپی پولیس پر اور بی جے پی حکومت پر حملہ کیا ہے۔ پارٹی جنرل سکریٹری جئے رام رمیش نے منگل کے روز ایک بیان جاری کر کہا کہ اتر پردیش پولیس نے ایک ملزم کو بچانے کے لیے چل رہی جانچ میں قصداً مداخلت کیا ہے۔ انھوں نے سنگین جرائم کے قصوروار شخص کو منصفانہ جانچ سے بچانے کے لیے بغیر کسی وجہ یا وضاحت کے ریاستی نظام کو تعینات کیا۔ انھوں نے سوال کیا کہ ایسا کیا راز ہے جس کے اس جانچ کے ذریعہ سے ظاہر ہونے کے خوف سے ان کے سیاسی آقاؤں کے ہاتھ پیر پھول گئے ہیں؟

Published: undefined

کانگریس لیڈر نے کہا کہ گرفتاری وارنٹ ثبوت کی بنیاد پر ایک کورٹ کے ذریعہ جاری کیا گیا تھا۔ پھر پولیس کی کارروائی میں کیوں رخنہ ڈالا گیا۔ انھوں نے کہا کہ کیا بی جے پی یہ دعویٰ کر سکتی ہے کہ عدالتوں کی بھی سیاست کاری ہو گئی ہے؟ جئے رام رمیش نے مزید کہا کہ اگر بی جے پی ملزمین کو بچانا ہی چاہتی ہے تو پھر عدالت کا دروازہ کیوں نہیں کھٹکھٹاتی؟

Published: undefined

جئے رام رمیش کا کہنا ہے کہ ایسا دوسری بار ہے جب بی جے پی نے عادتاً ملزمین کو جائز قانونی جانچ اور تفتیش سے بچانے کے لیے پولیس فورس کو تعینات کیا ہے۔ کانگریس لیڈر نے کہا کہ ’’یہ کون سا گٹھ جوڑ ہے جس کا پردہ فاش ہونے سے بی جے پی ڈر رہی ہے؟ بی جے پی کیوں نہیں چاہتی کہ فرضی خبر اور جھوٹی صحافت کے ایسے پیروکاروں کی ذمہ داری طے کی جائے، جو سنگین شہری بدامنی کی وجہ بن سکتے ہیں؟‘‘

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined