اتر پردیش پولیس نے آلٹ نیوز کے شریک بانی محمد زبیر کے خلاف ایک سوشل میڈیا پوسٹس کے لیے ایف آئی آر درج کی ہے۔ اس پوسٹ میں مبینہ طور پر ایک سات سالہ مسلم لڑکے کی شناخت ظاہر کی گئی ہے جسے اس کے استاد کے حکم پر اس کے ہم جماعتوں نے تھپڑ مارا تھا۔ مظفر نگر پولیس نے پیر کو وشنودت نامی ایک شخص کی شکایت پر جوینائل جسٹس ایکٹ کی دفعہ 74 کے تحت یہ مقدمہ درج کیا۔ اس قانون کے مطابق اگر کوئی شخص متاثرہ بچے یا کسی جرم کے گواہ کی شناخت ظاہر کرتا ہے تو یہ قابل سزا ہے۔ قصوروار ٹھہرائے جانے والوں کو 6 ماہ قید یا 2 لاکھ روپے تک کا جرمانہ ادا کرنے کے لیے کہا جا سکتا ہے۔
Published: undefined
واضح رہے کہ گزشتہ جمعہ (25 اگست) کو ایک ایسی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی جس میں خاتون ٹیچر نے ایک مسلم طالب علم کو تھپڑ مارنے کے لیے دوسرے مذہب سے جڑے ایک دیگر طالب علم کو ہدایت دی۔ جب یہ ویڈیو تیزی کے ساتھ پھیلنے لگی تو نیشنل کمیشن فار پروٹیکشن آف چائلڈ رائٹس (این سی پی سی آر) نے خبردار کیا تھا کہ ایسی ویڈیو کو شیئر نہ کریں۔ این سی پی سی آر کے سربراہ پریانک قانونگو نے لوگوں سے کہا کہ ’’بچوں کی شناخت ظاہر کر کے جرم کا حصہ نہ بنیں۔‘‘
Published: undefined
اس پورے معاملے میں محمد زبیر نے پیر کو میڈیا پلیٹ فارم ’اسکرول‘ کو بتایا کہ انہیں نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’اس ویڈیو کو کئی دیگر لوگوں نے بھی شیئر کیا تھا، لیکن ایف آئی آر میں صرف میرا نام ہے۔‘‘ انھوں نے یہ بھی جانکاری دی کہ پولیس نے ابھی تک اس معاملے میں ان سے رابطہ نہیں کیا ہے۔
Published: undefined
واضح رہے کہ مسلم طالب علم کی پٹائی کا واقعہ مظفر نگر کے نیہا پبلک اسکول میں پیش آیا جس کی مالکن ترپتی تیاگی ہے۔ ویڈیو میں نظر آنے والی ٹیچر مسلم طالب علم کے ہم جماعت سے اسے مارنے کے لیے کہہ رہی ہیں۔ ویڈیو میں ترپتی تیاگی کہہ رہی ہیں ’’اس کی کمر پر مارو… اس کا چہرہ سرخ ہو رہا ہے، اسے کمر پر مارو۔‘‘ جب غیر مسلم طلبا اپنے استاد کی ہدایت پر عمل کرتا ہے تو زوردار تھپڑ کی آواز سنائی دیتی ہے۔ ایک موقع پر وہ کہتی ہیں ’’تم زور سے مارتے کیوں نہیں؟ کس کی باری ہے؟‘‘ محترمہ تیاگی کو بچوں کو اکساتے ہوئے سنا جا سکتا ہے۔
Published: undefined
بہرحال، ترپتی تیاگی پر تعزیرات ہند کی دفعہ 323 اور 504 کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ حالانکہ اس کے خلاف مقدمہ ناقابل شناخت الزامات کے تحت درج کیا گیا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ پولیس اسے بغیر وارنٹ کے گرفتار نہیں کر سکتی۔ اس میں پولیس کو بھی تفتیش شروع کرنے کے لیے عدالت سے اجازت درکار ہوتی ہے۔ تاہم، ترپتی تیاگی نے مسلم لڑکے کو نشانہ بنائے جانے پر مشتمل وائرل ویڈیو کے بعد عائد الزامات کو مسترد کر دیا ہے۔ انھوں نے اسے ایک معمولی معاملہ قرار دیا ہے جسے غیر ضروری طور پر بڑا مسئلہ بنا کر پیش کیا جا رہا ہے۔ انھوں نے ساتھ ہی اس بات سے بھی انکار کیا ہے کہ اس واقعہ میں فرقہ واریت کا عنصر موجود ہے۔
Published: undefined
متاثرہ طالب علم کے والد نے اس واقعہ کے بارے میں پولیس کو بتایا کہ لڑکے کی تذلیل کی گئی اور گھنٹوں کھڑے رہنے پر مجبور کیا گیا۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ’’ٹیچر نے دیگر طلبا سے میرے بچے کو بار بار پٹوایا، میرے بیٹے کو ایک یا دو گھنٹے تک تشدد کا نشانہ بنایا گیا، وہ خوفزدہ ہے۔‘‘ ساتھ ہی والد نے جانکاری دی کہ بچے کو میڈیکل چیک اپ کے لیے میرٹھ لے جایا گیا تھا اور اب وہ بہتر ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز