الہ آباد: الہ آباد ہائی کورٹ نے اتر پردیش غیرقانونی تبدیلی مذہب قانون 2021 کے آئینی جواز کو چیلنج کرنے والی عرضی پر یوگی حکومت کے خلاف نوٹس جاری کیا ہے۔ قائم مقام چیف جسٹس منیشور ناتھ بھنڈاری کی سربراہی والی بنچ نے عرضی کو دیگر زیر التواء درخواستوں کے ساتھ منسلک کر دیا اور اسے تین ہفتوں بعد کے لئے لسٹ کر دیا۔
Published: undefined
تبدیلی مذہب قانون کے خلاف پہلے ہی دو مفاد عاملہ کی عرضیاں دائر کی جا چکی ہیں۔ نئی عرضی سمیت تمام درخواستوں پر اب آئندہ تاریخ پر سماعت متوقع ہے۔ یہ عرضی آنند مالویہ نے ایڈوکیٹ شادان فراست اور طلحہ عبدالرحمان کے ذریعے دائر کی تھی۔
Published: undefined
عرضی گزار آنند مالویہ ایک ریٹائرڈ سرکاری ملازم ہیں، جنہوں نے حکومت ہند کے قومی نمونہ سروے آفس میں سینئر شماریاتی افسر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں ہیں۔ انہوں نے دلیل دی ہے کہ قانون آئین کے سیکولر کردار کے خلاف ہونے کے ساتھ انتخاب کی آزادی اور مذہب کی آزادی کی خلاف ورزی ہے۔
Published: undefined
انہوں نے کہا کہ قانون بنیادی طور پر موجودہ آئینی حیثیت کی نفی کرنے کی کوشش کرتا ہے اور مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے افراد کو شادی سے پہلے ریاست سے 'اجازت' لینے پر مجبور کرتا ہے۔ عرضی میں کہا گیا ہے کہ یہ عمل فرقہ واریت کی آگ کو بھڑکانے اور معاشرے کو ذات اور مذہبی بنیادوں پر تقسیم کرنے کی ایک کوشش ہے۔
Published: undefined
عرضی گزار نے اس بات پر بھی روشنی ڈالی کہ بین مذہبی شادی کے معاملات سامنے آنے کے بعد کانپور میں ایک خصوصی تحقیقاتی ٹیم (ایس آئی ٹی) تشکیل دی گئی تھی لیکن ایس آئی ٹی کو 'لو جہاد' کی کوئی بڑے پیمانے پر سازش نہیں ملی۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ اس قانون کو گزٹ میں ’لو جہاد‘ کے طور پر درج کیا گیا ہے۔ اس معاملے سے متعلق دیگر درخواستوں کے ساتھ سماعت 5 اکتوبر کو دوبارہ ہوگی۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز