لکھنؤ: بی جے پی کو ایسی سیاسی جماعت قرار دیا جاتا ہے جو انتخابات میں مسلم امیدواروں کو میدان میں اتارنے سے گریز کرتی ہے لیکن اس مرتبہ زعفرانی جماعت نے اس خیال کے برعکس کام کرتے ہوئے مسلمانوں کو بھرپور مواقع فراہم کیے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق بی جے پی نے یوپی بلدیاتی انتخابات میں 391 مسلم امیدواروں کو میدان میں اتارا ہے۔
Published: undefined
رپورٹ کے مطابق بی جے پی نے بلدیاتی انتخابات میں جن 391 مسلم امیدواروں کو میدان میں اتار ہے۔ ان میں سے 5 نگر پالیکا پریشد اور 35 نگر پنچایتوں کے چیئرمین کے علاوہ میونسپل کارپوریشن کونسلرز عہدوں کے امیدوار شامل ہیں۔ لکھنؤ میں کونسلرز کے دو عہدوں، میرٹھ میں 21، سہارنپور میں 13 اور بنارس میں 3 مسلم امیدواروں کو ٹکٹ دیئے گئے ہیں۔
Published: undefined
ماہرین خیال ہے کہ بی جے پی زیادہ سے زیادہ سیٹیں جیتنا چاہتی ہے اسی غرض سے اس نے مسلم اکثریتی علاقوں میں مسلم امیدواروں پر بھروسہ دکھایا ہے۔ وہیں، بی ایس پی نے بھی مسلمانوں کو بھرپور مواقع فراہم کرتے ہوئے 65 فیصد مسلم امیدوار میدان میں اتارے ہیں۔ بی ایس پی کے کھڑے کیے گئے 17 امیدواروں میں میں سے 11 امیدوار مسلمان ہیں۔ جبکہ سماجوادی پارٹی اور کانگریس نے 4-4 مسلم امیدواروں کو موقع دیا ہے۔
Published: undefined
بی جے پی کے وزیر مملکت برائے اقلیت دانش آزاد انصاری کا کہنا ہے ’’مسلمان وزیر اعظم مودی اور وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ کی ترقی کی سیاست پر بھروسہ کرکے ہماری پارٹی میں شامل ہو رہے ہیں۔ ہماری پارٹی نے کبھی ووٹ بینک کی سیاست نہیں کی۔ ہماری جماعت اس معاشرے کی بہتری چاہتی ہے۔ بلدی انتخابات میں بی جے پی نے بڑی تعداد میں ٹکٹ دیئے ہیں۔ یہ جیت کر ڈبل انجن حکومت کے ساتھ کام کریں گے اور سب کو آگے لے جائیں گے۔‘‘
Published: undefined
سماج وادی پارٹی کے ترجمان ڈاکٹر آشوتوش ورما نے بی جے پی کی طرف سے مسلم امیدوار کھڑے کیے جانے پر کہا کہ بی جے پی سمجھ چکی ہے کہ اس ملک میں مسلمانوں کی اتنی زیادہ آبادی ہے کہ آپ کچھ وقت کے لیے گالی دے کر اقتدار حاصل کر سکتے لیکن ملک کی بھلائی نہیں کر سکتے۔ بی جے پی پر اقلیت مخالف ہونے کا الزام لگایا گیا ہے۔ جب سے بی جے پی کو پتہ چل گیا ہے کہ اس کی لوکل باڈی الیکشن میں زمین کھسکنے والی ہے، تب سے وہ ایسی حرکتیں کر رہی ہے۔ لیکن امت مسلمہ اپنی ذلت کو نہیں بھولی۔ وہ جانتے ہیں کہ سماج وادی پارٹی پارلیمنٹ سے لے کر سڑک تک ان کے حق میں لڑتی ہے۔
Published: undefined
سینئر سیاسی تجزیہ کار رتن منی لال کا کہنا ہے کہ 2012 سے بی جے پی نے مسلم کمیونٹی کو اپنی مہم سے دور رکھا ہے۔ لیکن پچھلے دو تین سالوں میں آہستہ آہستہ آر ایس ایس اور بی جے پی کی طرف سے ان کی طرف نرم گوشہ نظر آنے لگا ہے۔ بی جے پی کے اندر یہ یقین ہے کہ اب ہم انہیں الگ نہیں رکھ سکتے۔ اب ان کو ساتھ لے کر چلو۔ اس کا آغاز پسماندہ سے ہوا۔ اس کے بعد دیگر کلاسز بھی شامل کی جائیں گی۔ اس کا ثبوت 2024 میں نظر آئے گا۔
Published: undefined
سینئر سیاسی تجزیہ کار اور مسلم سیاست کے ماہر حسین افسر کہتے ہیں کہ جمہوریت میں ہر پارٹی ہر طبقہ سے ووٹ حاصل کرنا چاہتی ہے۔ اسی لیے بی جے پی نے یہ قدم اٹھایا ہے۔ بی جے پی نے پسماندہ مسلمانوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے ٹکٹوں کی تقسیم کی ہے۔ دراصل لوکل باڈی الیکشن کے ذریعے وہ لوک سبھا سے پہلے ٹیسٹ کرنا چاہتی ہے۔ بی جے پی کا ووٹ کچھ فیصد بڑھے گا۔ اس کمیونٹی کو خوش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہ لوگ کئی جگہوں پر ووٹ کاٹیں گے۔ مسلمان اب بھی بی ایس پی اور بی جے پی پر شک کرتے ہیں۔ اب اعتماد پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ مسلم ووٹ منقسم ہے۔ اتنی بڑی تعداد کو کوئی نظر انداز نہیں کر سکتا۔ اس لیے یہ لوگ سب کو ساتھ لے کر چلنے کا پیغام دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined