نئی دہلی: یوپی کے سیتا پور شہر سے لوجہاد کے نام پر گرفتار دس ملزمین جس میں دو خاتون بھی شامل ہیں کو مقدمہ سے ڈسچارج یعنی ان کے خلاف قائم مقدمہ ختم کرکے انہیں جیل سے فوراً رہا کیے جانے کی عرضداشت جمعیۃ علماء ہند کی قانونی امداد کمیٹی کی طرف سے الہ آباد ہائیکورٹ کی لکھنؤ بینچ میں داخل کردی گئی ہے۔
Published: undefined
ریلیز کے مطابق جمعیۃعلماء ہند نے الزام لگایا کہ حکومتیں لو جہاد کے نام پر مسلمانوں کو ہراساں کر رہی ہیں اور آئین ہند کے ذریعہ حاصل بنیادی حقوق کو اقتدار کے بل بوتے پر پامال کر رہی ہیں۔ حکومتوں کے اس امتیازی اور ظالمانہ رویہ کے خلاف اب جمعیۃعلماء ہند نے بھی اپنی قانونی جدوجہد کا آغاز کردیا ہے، اس پٹیشن پر آئندہ منگل یا بدھ کو سماعت ہوسکتی ہے۔ جمعیۃ علماء مہاراشٹر قانونی امداد کمیٹی کے سربراہ گلزار اعظمی نے معاملہ کی تفصیل پر روشنی ڈالتے ہوئے بتایا کہ ملزمین کے اہل خانہ نے مولانا وکیل احمد قاسمی کے توسط سے صدرجمعیۃ علماء ہند حضرت مولانا سید ارشد مدنی سے قانونی امداد طلب کی تھی جسے منظور کرتے ہوئے ملزمین کی رہائی کے لئے ہائی کورٹ سے رجوع کیا گیا ہے اور ملزمین کی رہائی کے لئے پٹیشن داخل کردی گئی ہے۔ایڈوکیٹ عارف علی، ایڈوکیٹ مجاہد احمد، ایڈوکیٹ فرقان خان کے ذریعہ داخل کردہ پٹیشن میں تحریر کیا گیا ہے کہ یو پی حکومت اپنے اختیارات کا ناجائز فائدہ اٹھاکر مسلمانوں کو لو جہاد کے نام پر ہراساں کررہی ہے اور انہیں آئین ہند کے ذریعہ دیئے گئے بنیادی حقوق سے محروم کر رہی ہے۔
Published: undefined
عرضداشت میں یہ بھی الزام لگایا گیا ہے کہ لو جہاد کو غیرقانونی قرار دینے والے قانون کا سہارا لے کر اتر پردیش پولیس مسلمانوں کو پریشان کر رہی ہے اور انہیں جیل کی سلاخوں کے پیچھے دھکیلا جا رہا ہے جس کی ایک بدترین مثال یہ مقدمہ ہے جس میں مسلم لڑکے کے والدین اورقریبی رشتہ داروں کو گرفتار کرلیا گیا ہے، جبکہ ان کا اس معاملے سے کوئی لینا دینا نہیں ہے، مسلم لڑکا اور ہندو لڑکی نے اپنی مرضی سے شادی کی ہے اور دونوں فی الحال کہاں ہیں یہ بھی کسی کو نہیں معلوم، لیکن لڑکی کے والد کی شکایت پر مقامی پولیس نے دو خواتین سمیت دس لوگوں کو گرفتار کرلیا، جس کے بعد سے پورے علاقے میں سراسمیگی کا ماحول ہے۔ عرضداشت میں مزید لکھا گیا ہے کہ عورتوں کی گرفتاری سے چھوٹے چھوٹے معصوم بچے بے یارو و مددد گار کسمپرسی کے عالم میں زندگی گزارنے پرمجبور ہیں اس کے باوجود پولیس والے انہیں چھوڑ نہیں رہے ہیں، حالانکہ ابھی تک پولیس نے اس معاملے میں چارج شیٹ بھی داخل نہیں کی ہے۔
Published: undefined
عرضداشت میں مزید کہا گیا ہے کہ لوگوں کو بغیر کسی ثبوت وشواہد کے گرفتار کرلیا گیا جبکہ یہ معاملہ صرف لڑکا اور لڑکی کے درمیان کا ہے، لہذا تمام لوگوں کے خلاف قائم مقدمہ کو فوراً ختم کیا جائے اور انہیں جیل سے فوراً رہا کیا جائے۔ گلزار اعظمی نے یہ بھی کہا کہ لکھنؤ ہائی کورٹ میں سماعت کے موقع پر سینئر وکلاء کی خدمات حاصل کی جائیں گی، کیونکہ حال ہی میں الہ آباد ہائی کورٹ نے اپنے فیصلہ میں کہا ہے کہ بالغ لڑکے لڑکی کو اپنی پسند کی شادی اور مذہب اختیار کرنے کا آئینی حق ہے اس کے باوجود لو جہاد کے نام پر یوپی سرکار مسلمانوں کو مسلسل نشانہ بنا کر ہراساں کر رہی ہے۔
Published: undefined
جمعیۃعلماء ہند کے صدر مولانا سید ارشدمدنی نے کچھ ریاستوں میں مذہبی آزادی پر قدغن لگانے کی غرض سے نام نہاد لوجہاد کی آڑمیں لائے گئے قانون پر سخت ردعمل کا اظہارکرتے ہوئے کہا کہ اس طرح کی قانون سازی آئین کے رہنمااصولوں کے خلاف ہے اور یہ قانون شہریوں کی آزادی اور خودمختاری پر ایک حملہ ہے، جبکہ آئین میں ملک کے ہر شہری کو نہ صرف مکمل مذہبی آزادی دی گئی ہے بلکہ اسے اپنی پسند اور ناپسند کے اظہارکا بھی پورا اختیار دیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ قانون سازی کے وقت دعویٰ کیا گیا تھا کہ اس کا اطلاق سب پر یکساں ہوگا، اور کسی فرقے کے ساتھ کوئی امتیاز نہیں برتا جائے گا لیکن اترپردیش جیسی اہم ریاست میں اس آئین مخالف قانون کا بلا روک ٹوک ایک مخصوص فرقہ کے خلاف استعمال ہو رہا ہے۔ انہوں نے آگے کہا کہ حال ہی میں اسی طرح کے ایک معاملہ میں الہ آباد ہائی کورٹ میں اترپردیش سرکار کی طرف سے جو حلف نامہ داخل کیا گیا ہے وہ اس افسوسناک سچائی کا آئینہ ہے، حلف نامہ میں دی گئی تفصیل کے مطابق اب تک جن 85 لوگوں کے خلاف اس قانون کے تحت مقدمے قائم کیے گئے ہیں ان میں 79مسلمان ہیں جبکہ دیگر عیسائی فرقے سے تعلق رکھتے ہیں۔
Published: undefined
مولانا مدنی نے یہ بھی دعوی کیا کہ اخبارات میں شائع ہونے والی رپورٹیں بتاتی ہیں کہ اترپردیش میں خاص طور پر اس طرح کے معاملوں میں اگر لڑگا ہندو ہے تو پولیس لڑکی کے گھر والوں کی تمام ترکوشش کے باوجود شکایت تک درج نہیں کرتی، الٹے ایسے جوڑوں کو پولیس تحفظ بھی فراہم کرتی ہے، انہوں نے آگے کہا کہ اس طرح کے واقعات یہ بتانے کے لئے کافی ہیں کہ اس قانون کا استعمال اقلیتوں اور خاص طور پر مسلمانوں کے خلاف ہی ہو رہا ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined