پانچ ریاستوں میں ہو رہے اسمبلی انتخابات میں یوپی سب سے اہمیت کا حامل ہے کیونکہ یوپی ملک کی وہ ریاست ہے جس میں پارلیمنٹ اور اسمبلی کی نشستیں سب سے زیادہ ہیں۔ یوپی کا مغربی حصہ اس لئے ہر انتخابات میں اہم رہتا ہے کیونکہ یہاں مسلم ووٹ بڑی تعداد میں ہے۔ حالانکہ قیادت کی کمی ہونے کی وجہ سے اس ووٹ کی کوئی خاص اہمیت سیاسی لیڈران کی نظر میں نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تقریباً 35 فیصد سے زائد ووٹ ہونے کے باوجود مغربی یوپی کا یہ حصہ صرف 14 فیصد جاٹ ووٹ ہونے کی وجہ سے جاٹ اکثر یتی کہلاتا ہے۔
Published: undefined
مظفر نگر میں فرقہ وارانہ فسادات کے بعد اس علاقے میں چودھری چرن سنگھ کی کوششوں سے قائم ہوا مسلم اتحاد پارہ پارہ ہو گیا تھا جس کا فائدہ گزشتہ اسمبلی انتخاب میں بی جے پی کو ملا۔ زرعی قانون کے بعد کسان تحریک کی وجہ سے سیکولر سیاست کرنے والی پارٹیوں کو اس علاقہ میں کامیابی ملنے کی امید جاگی ہے۔ یوپی انتخابات میں سماج وادی پارٹی اور راشٹریہ لوک دل کا اتحاد ہے جو جاٹ مسلم ووٹ کی بدولت صوبے کے اقتدار پر قابض ہونا چاہتے ہیں۔
Published: undefined
کانگریس پارٹی بھی اس علاقہ میں اپنے آپ کو مضبوط کرنے میں لگی ہے، جبکہ بی ایس پی دلت مسلم گٹھ جوڑ کی خواہش مند ہے اور بی جے پی اپنے پرانے ایجنڈے کو قائم رکھنے کی جدوجہد کر رہی ہے۔ مغربی یوپی کے پہلے فیز میں 58 سیٹوں پر ٹکٹ کے بٹوارے میں بی ایس پی 15 مسلم امیدوار اتار کر مسلم نمائندگی میں سب سے آگے ہے، جبکہ کانگریس نے 12 مسلم امیدواروں پر داؤ لگایا ہے اور آر ایل ڈی-سماج وادی پارٹی اتحاد نے 9 مسلم امیدواروں کو موقع دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سب کی نظریں پہلے فیز پر مرکوز ہیں۔
Published: undefined
اگر اس علاقے میں کسان اور دیگر عوامی مسائل کی بنیاد پر ووٹ ڈالے جاتے ہیں تو سیکولر نظریات والی پارٹیوں کو اس کا فائدہ ہوگا، اور اگر مظفر نگر فساد کے بعد پڑی دراڑ کے موقف پر ووٹ ڈالے جاتے ہیں تو بی جے پی کو کامیابی حاصل ہوگی۔ شاید یہی وجہ ہے کہ کانگریس کو چھوڑ کر کوئی بھی سیکولر سماجی جماعت مسلمانوں کے مدعے کو چھونے سے کترا رہی ہے۔ سماجوادی پارٹی سربراہ اکھلیش یادو سے مسلم طبقہ کو یہ شکایت بھی ہے، لیکن مسلم ووٹر کا صرف ایک ہی نظریہ ہے کہ کس طرح بی جے پی کو اقتدار سے ہٹایا جائے۔ اس طبقہ پر ہمیشہ یہی ذمہ داری رہتی ہے۔
Published: undefined
بی جے پی نے مغربی یوپی کے پہلے فیز میں اپنے ایجنڈے پر کام کرنے کی کوشش کی، مگر ابھی تک اس میں بی جے پی کو خاطر خواہ کامیابی نہیں ملی ہے۔ آر ایل ڈی اور سماجوادی پارٹی کے اتحاد کے بعد یہ لگ رہا تھا کہ اس علاقے میں جاٹ اور مسلم پوری طرح سے اس اتحاد کے ساتھ ہوں گیں مگر بی جے پی کی جڑیں ابھی پوری طرح سے خالی نہیں ہوئی ہیں۔ 30 فیصد جاٹ ووٹ بی جے پی کی طرف جاتا نظر آ رہا ہے۔ مظفر نگر، میرٹھ، باغپت، کیرانہ، شاملی، ہاپوڑ علاقوں میں آر ایل ڈی اور سماجوادی پارٹی اتحاد کو فائدہ ہوتا نظر آ رہا ہے، جبکہ کانگریس بھی اس بار ان علاقوں میں پانچ سے چھ سیٹوں پر سخت مقابلہ کرے گی۔ بی ایس پی کا مسلم-دلت کارڈ اگر چلا تو پہلے فیز میں بی ایس پی بھی کچھ سیٹوں پر سخت مقابلہ کر سکتی ہے۔
Published: undefined
گوتم بدھ نگر، غازی آباد و بلند شہر علاقوں میں ابھی بی جے پی کا ہی دبدبہ نظر آ رہا ہے۔ یہاں اتحاد کا اثر کم ہے بلکہ کانگریس و بی ایس پی، بی جے پی کے مقابلے میں نظر آ رہی ہے۔ سیاسی مبصرین کی مانیں تو پہلا اور دوسرا فیز اگر کسان و عوامی مسائل کی بنیاد پر ہوتا ہے تو یوپی کے اگلے فیز بھی اسی بنیاد پر ہوں گے۔ فرق صرف اتنا ہوگا کہ پورب اور بندیل کھنڈ میں اعلیٰ و پسماندہ ذات آمنے سامنے ہوں گی، اور اگر ان دونوں فیز میں فرقہ پرستی کی بنیاد پر ووٹ ڈالے گئے تو پھر اگلے فیز میں بھی اسی بنیاد پر ووٹنگ ہوگی جس کا فائدہ بی جے پی کو ہوگا۔ سیکولر سیاسی پارٹیاں بھی اس بات کو بخوبی سمجھ رہی ہیں اسی لیے ان کی کوشش ہے کہ یوپی کا یہ چناؤعوامی مدعوں کی بنیاد پر ہو۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز