اتر پردیش اسمبلی انتخابات میں حق رائے دہی کا بگل بج چکا ہے اور کل 10 فروری کو پہلے مرحلہ کے تحت 58 اسمبلی سیٹوں پر ووٹنگ ہونے جا رہی ہے۔ دہلی سے ملحقہ ان تمام سیٹوں پر کسان تحریک کا سب سے زیادہ اثر نظر آ رہا ہے۔ یہ 58 سیٹیں مظفر نگر، باغپت، شاملی، ہاپوڑ، بلند شہر میرٹھ، گوتم بدھ نگر، غازی آباد، متھرا، آگرہ، علی گڑھ اضلاع میں واقع ہیں۔ کسانوں کی اکثریت والے علاقوں میں بی جے پی کے خلاف کافی ناراضگی پائی جا رہی ہے۔ بی جے پی کے امیدواروں کو گاؤں میں داخل ہونے پر بھی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ انتخابات میں زمینی جانچ پڑتال سے پتہ چلتا ہے کہ ووٹر شہری اور دیہی سطحوں میں تقسیم ہیں۔ اسے اس طرح بھی کہا جا سکتا ہے کہ زراعت سے وابستہ طبقہ یکطرفہ طور پر حکومت سے ناراض نظر آ رہا ہے۔ اس مرحلے میں 2.27 کروڑ ووٹر اپنے حق رائے دہی کا استعمال کریں گے۔
Published: undefined
اتر پردیش انتخابات میں ذات پات کی مساوات کا اثر ایک بار پھر انتخابی مہم میں نظر آ رہا ہے۔ سیاسی جماعتوں نے ذاتوں کی صف بندی کے لیے امیدواروں کے ذات پات کے حساب کتاب کو سنجیدگی سے لیا ہے۔ ملک کی سب سے بڑی ریاست ہونے کے ناطے اور 403 اسمبلی سیٹوں کے ساتھ پہلے مرحلے میں ایک اچھی شروعات پوری ریاست کی رفتار طے کرنے والی ہے۔ مغربی اتر پردیش کے پہلے مرحلے کے اس الیکشن میں کئی بڑے چہرے لڑ رہے ہیں۔ ان میں ریاستی حکومت کے گنے کے وزیر سریش رانا کا نام بھی شامل ہے۔ گنے کی پٹی میں کسانوں کی ناراضگی کا اثر اس حقیقت سے ظاہر ہوتا ہے کہ انہیں اپنی تھانہ بھون اسمبلی سیٹ پر سخت جدوجہد کا سامنا ہے۔ راشٹریہ لوک دل، 2017 میں جس کا صرف ایک امیدوار فتح یاب ہوا تھا وہ پہلے مرحلے میں سب سے اہم پارٹی بن گئی ہے۔ سابق وزیر اعظم چودھری چرن سنگھ کے پوتے چودھری جینت سنگھ کی اہمیت کافی بڑھی ہوئی نظر آ رہی ہے۔ تھانہ بھون اسمبلی سیٹ کے جلال آباد شہر کے ونود ملک کے مطابق گنے کے بقایہ جات اور اس کی قیمت یہاں ایک بڑا مسئلہ ہے۔ گنے کے وزیر ناکام ہو چکے ہیں، وہ اپنے علاقے کے لیے کچھ نہیں کر سکے حالانکہ وہ خود گنے کی کاشت کرتے ہیں۔
Published: undefined
اس پہلے مرحلے میں ایک اور سب سے اہم پیش رفت یہ ہے کہ جاٹ اور مسلمان یکجا نظر آ رہے ہیں۔ یہ بی جے پی کے لیے سب سے بڑا درد سر ہے اور اسی لیے بی جے پی مسلسل جینت چودھری کو مائل کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ ان تمام اسمبلی سیٹوں پر 17 فیصد جاٹ ہیں اور حالت یہ ہے کہ شادیوں کے دوران بارات میں بھی آر ایل ڈی کا جھنڈا نظر آ رہا ہے۔ آر ایل ڈی یہاں سماج وادی پارٹی سے اتحاد کر کے انتخابات لڑ رہی ہے۔ کچھ سیٹوں پر سماج وادی پارٹی کے لیڈر آر ایل ڈی کے نشان پر الیکشن لڑ رہے ہیں۔ یہ کیمسٹری کی ایک مختلف قسم ہے۔ 2017 کے انتخابات میں صرف میرٹھ ڈویژن میں 28 میں سے 25 سیٹیں جیتنے والی بی جے پی کی راہ اس بار دشوار نظر آ رہی ہے۔ ان 58 سیٹوں پر یقینی طور پر اسے پہلے جیسی کامیابی نہیں ملنے والی۔ باغپت کے کلدیپ راٹھی کا کہنا ہے کہ کسانوں کی تحریک کے سبب بی جے پی نے 13 ماہ کے بعد زرعی قانون واپس لئے اور کسانوں کے لیے بہت زیادہ ناشائستہ الفاظ کا استعمال کیا، یہ چوٹ دل پر لگی ہے۔
Published: undefined
مغربی اتر پردیش کے اس پہلے مرحلے میں بی جے پی نے اپنے تمام مہلک ہتھیاروں کا استعمال کیا ہے۔ یہاں ترقی کے دعووں کے باوجود مظفر نگر فسادات، نقل مکانی اور کانوڑ یاترا جیسے پولرائزیشن والے مسائل کو ہوا دی گئی۔ ہندوتوا کا کارڈ کھیلنے کی بھی ہر ممکن کوشش کی گئی، لیکن لوگوں کے رجحان میں کوئی تبدیلی نظر نہیں آئی۔ اس کے برعکس اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کے مظفر نگر اور شاملی میں ’گرمی نکالنے‘ والے بیان کا منفی اثر نظر آ رہا ہے اور نوجوانوں میں ناراضگی ہے۔ نوجوانوں کا کہنا ہے کہ جب بھرتیاں نکالنی چاہیے تھیں اس وقت وہ گرمی دور کرنے والی تقریریں کر رہے ہیں۔ یہاں تین سال سے فوج کی بھرتی نہیں نکلی ہے اور نوجوانوں میں اس کے حوالہ سے ناراضگی ہے۔ ترقی کا معاملہ الیکشن سے غائب نظر آرہا ہے اور اس پر بات نہیں ہو رہی۔ کیرانہ سے سماج وادی پارٹی کی امیدوار ناہید حسن جیل میں ہیں اور ان کی بہن اقرا حسن ان کی انتخابی مہم دیکھ رہی ہیں، کہتی ہیں ’’مغربی یوپی تاریخ رقم کرنے جا رہی ہے۔ بی جے پی بری طرح ہارے گی۔‘‘
Published: undefined
پہلے مرحلے کی کامیابی کا انحصار آر ایل ڈی اور ایس پی اتحاد پر ہے جو بی جے پی سے براہ راست مقابلہ میں نظر آ رہی ہیں۔ کانگریس لیڈر پرینکا گاندھی کے تئیں لوگوں میں کافی ہمدردی اور قبولیت پائی جاتی ہے لیکن بی جے پی حکومت کو بدلنے کی خواہش ووٹوں کی تقسیم کو روکتی ہے۔ آر ایل ڈی اور ایس پی نے سابقہ الیکشن الگ الگ لڑا تھا اور اگر ان دونوں کے ووٹوں کو ملایا جائے تو بی جے پی اب بھی 28 میں سے 21 سیٹوں پر مضبوط ہے لیکن 27 سیٹوں پر آر ایل ڈی کو 7-7 ہزار سے بھی کم ووٹ ملے تھے۔ یعنی جاٹ جو اس کے اہم ووٹر تھے تب بی جے پی کو حمایت کر رہے تھے جبکہ اس بار ایسا نہیں ہے۔ جاٹ اکثریت حکومت بدلنا چاہتی ہے۔ یہ وہ فرق ہے جس کی وجہ سے بی جے پی کی سیاسی زمین کھسک سکتی ہے۔ سابقہ انتخابات میں مسلم ووٹ ایس پی اور بی ایس پی کے درمیان تقسیم ہو گیا تھا لیکن اس بار تقسیم کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ بی ایس پی کی طرف کوئی جھکاؤ نہیں ہے۔ بی جے پی دلت ووٹوں کو مائل کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ بلند شہر کے سیانہ سے وکی کوشک کہتے ہیں کہ صرف جاٹ ہی کسان نہیں ہیں، ہم بھی کسان ہیں اور حکومت سے پریشان ہیں۔ کانگریس نے یہاں سے کسان چہرہ پونم پنڈت کو امیدوار بنایا ہے۔ وہ نوجوانوں میں مقبول ہیں اور انتخابات کو دلچسپ بنا رہی ہیں۔
Published: undefined
ایک اور اہم بات یہ ہے کہ ان 58 سیٹوں میں سے تقریباً 40 سیٹوں پر جیت کا فرق 10 سے 15 ہزار کے درمیان جا رہا ہے۔ امیر امیدوار اس کے لیے طرح طرح کی کوششیں کر رہے ہیں۔ اپوزیشن نے بھی اس صورتحال کا نوٹس لیا ہے اور وہ پوسٹل بیلٹ کے معاملے پر الیکشن کمیشن سے رابطہ میں ہیں۔ مظفر نگر سماج وادی پارٹی کے ضلع صدر ایڈوکیٹ پرمود تیاگی بتاتے ہیں کہ لوک سبھا انتخابات میں زیادہ تر سرکاری مشینری نے حکمراں پارٹی کی طرف بہت زیادہ جھکاؤ ظاہر کیا تھا۔ ہم منصفانہ انتخابات چاہتے ہیں اور کسی بھی اثر و رسوخ کو ختم کریں گے۔ اس حوالے سے الیکشن کمیشن کو آگاہ کر دیا گیا ہے۔
Published: undefined
کسانوں کی راجدھانی کے نام سے مشہور سسولی کے باشندگان بھی اس مرحلے میں ووٹ ڈالنے جا رہے ہیں۔ سسولی میں کسانوں کی تنظیم بھارتیہ کسان یونین کا دفتر ہے۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں ٹکیت خاندان رہائش پذیر ہے۔ راکیش ٹکیت اب کھلے عام بی جے پی حکومت کو کسان مخالف قرار دے رہے ہیں۔ سسولی کے گورو ٹکیت بتاتے ہیں کہ 700 کسان شہید ہوئے ہیں۔ لکھیم پور کے وزیر ٹینی ابھی تک سینہ تان کر چل رہے ہیں۔ حکومت کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی، کسانوں کو مسلسل برا بھلا کہا جا رہا ہے۔ کسان یقیناً ناراض ہیں۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined