ملک میں بے روزگاری شرح تین سال کی سب سے اونچی سطح پر پہنچ گئی ہے۔ سنٹر فارم مانیٹرنگ انڈین اکونومی (سی ایم آئی ای) کے ذریعہ جاری اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ مہینے یعنی اکتوبر میں بے روزگاری شرح 8.5 فیصد رہی، جو اگست 2016 کے بعد کی سب سے اونچی سطح ہے۔ یہ اعداد و شمار اسی سال ستمبر میں جاری اعداد و شمار سے بھی کافی زیادہ ہے۔
Published: undefined
اس کے علاوہ عطیم پریم جی یونیورسٹی کے سنٹر فار سسٹنیبل امپلائمنٹ کی ایک تحقیق میں یہ بھی دعویٰ کیا گیا ہے کہ گزشتہ چھ سالوں میں لوگوں کو روزگار ملنے کی تعداد میں کافی گراوٹ آئی ہے۔ 12-2011 سے لے کر 18-2017 کے درمیان 90 لاکھ لوگوں کو اپنی ملازمت گنوانی پڑی۔ ہندوستان کی تاریخ میں ایسا پہلی بار ہوا ہے۔ ملک کی تین ریاستوں میں حالات سب سے زیادہ خطرناک ہیں۔ سی ایم آئی ای کے اعداد و شمار کے مطابق تریپورہ، ہریانہ اور ہماچل پردیش میں لوگوں کو ملازمتیں ڈھونڈنے سے بھی نہیں مل رہی ہیں۔ آٹو سمیت کئی سیکٹر میں حالات بگڑنے سے بھی یہ اثر دیکھنے کو مل رہا ہے۔ ٹیکسٹائل، چائے، ایف ایم سی جی، رئیل اسٹیٹ جیسے سیکٹر میں زبردست بحرانی کیفیت دیکھنے کو مل رہی ہے۔
Published: undefined
سی ایم آئی ای نے جو ڈاٹا جاری کیا تھا اس کے مطابق 2016 سے 2018 کے درمیان 1.1 کروڑ لوگوں کو ملازمت سے ہاتھ دھونا پڑا تھا۔ فروری 2019 میں بے روزگاری کا نمبر 7.2 فیصد پر پہنچ گیا۔ وہیں گزشتہ سال فروری میں یہ نمبر 5.9 فیصد تھا۔ رپورٹ کے مطابق جہاں گزشتہ سال 40.6 کروڑ لوگ ملازمت کر رہے تھے، وہیں اس سال فروری میں یہ نمبر صرف 40 کروڑ رہ گیا۔ اس حساب سے 2018 اور 2019 کے درمیان تقریباً 60 لاکھ لوگ بے روزگار ہو گئے۔
Published: undefined
اسی سال مئی میں جاری رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ شہری علاقوں میں بے روزگاروں کی تعداد 7.8 فیصد رہی، وہیں دیہی علاقوں میں یہ 5.3 فیصد رہی تھی۔ رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ نوٹ بندی کی وجہ سے نئی ملازمتوں کی تعداد میں کافی گراوٹ آ گئی تھی جو ابھی سنبھلی نہیں ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined