گجرات میں دو سرکردہ ہندو تنظیمیں آپس میں لڑتی ہوئی نظر آ رہی ہیں۔ ایک طرف وی ایچ پی یعنی وشو ہندو پریشد ہے اور دوسری طرف پروین توگڑیا کے ذریعہ بنائی گئی تنظیم انتر راشٹریہ ہندو پریشد یعنی اے ایچ پی ہے۔ ان دونوں ہی تنظیموں کے اراکین ایک دوسرے سے لڑتے جھگڑتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔ خصوصی طور پر فرقہ وارانہ طور پر وڈودرا کے حساس علاقہ تلات واڑا میں ایک دفتر پر قبضہ کو لے کر دونوں تنظیمیں آپس میں متصادم ہیں۔
Published: undefined
قابل ذکر ہے کہ پروین توگڑیا ایک وقت میں وی ایچ پی کے سربراہ تھے اور پھر کچھ اختلافات کی وجہ سے ایک نئی تنظیم اے ایچ پی کی بنیاد ڈالی۔ وی ایچ پی کے کئی کارکنان ان کے ساتھ اے ایچ پی میں شامل ہو گئے۔ اس وقت سے ہی وی ایچ پی اور ایچ پی میں تلخیاں بڑھی ہوئی ہیں، جو اکثر و بیشتر سامنے آ جاتی ہیں۔ انگریزی روزنامہ ’انڈین ایکسپریس‘ کے اسپیشل کالم ’گجرات کنفیڈنشیل‘ میں شائع ایک خبر کے مطابق تنازعہ اس وقت شروع ہوا جب اے ایچ پی کے رکن، جو کہ دوبارہ وی ایچ پی میں واپس چلے گئے تھے، انھوں نے اے ایچ پی کے اراکین کو کرایہ پر دفتر دیا۔ بعد میں وی ایچ پی نے چاہا کہ وہاں وہ اپنا دفتر بنائے۔ معاملہ بڑھا تو چیریٹیبل کمشنر نے دفتروں کے کرایہ کے سمجھوتہ کو منسوخ کر دیا۔ اسی وجہ سے دونوں فریقین کے درمیان کشیدگی پیدا ہو گئی۔
Published: undefined
خبروں کے مطابق کسی بھی ناخوشگوار واقعہ سے بچنے اور ماحول بہتر بنانے کے لیے انتظامیہ نے دفتر کے باہر بڑی تعداد میں پولس فورس کو تعینات کر دیا ہے۔ ایسا جمعہ کی شب سے ہفتہ کی صبح تک چلتا رہا۔ پولس کا کہنا ہے کہ دونوں تنظیموں کے اراکین نے ایک دوسرے کے خلاف ایف آئی آر درج کرانے کی اپیل کی۔ حالانکہ بعد میں دونوں فریقین نے پولس کے سامنے معاملے کو اٹھانے سے منع کر دیا ہے اور آپس میں ہی تنازعہ کا حل نکالنے کی بات کہی۔
Published: undefined
قابل ذکر ہے کہ پروین توگڑیا وی ایچ پی کے خلاف کھڑے نظر آ رہے ہیں اور کئی چیزوں کو لے کر وہ وی ایچ پی سے ناراض ہیں۔ انھوں نے وی ایچ پی پر مقاصد سے بھٹکنے کا الزام بھی کئی بار لگایا ہے۔ خود کو حقیقی ہندو لیڈر ظاہر کرنے کی کوششیں بھی پروین توگڑیا نے کئی بار کی ہے اور انھوں نے ایک تازہ بیان یہ بھی دیا ہے کہ ان کی تنظیم یعنی اے ایچ پی گجرات میں گربا انعقاد والے مقامات پر غیر ہندو طبقہ کے لوگوں کا داخلہ روکنے کے لیے کام کر رہی ہے۔ تنظیم کے جنرل سکریٹری رنچھوڑ بھارواڑ نے بھی اس سلسلے میں ایک بیان دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’ہم نے گربا انعقاد کرنے والوں سے یہ یقینی کرنے کے لیے کہا ہے کہ ہندوؤں کی اس تقریب کے وقار کے ساتھ کوئی کھلواڑ نہ ہو۔ ایسے میں اگر کوئی غیر ہندو گربا کھیلنا چاہتا ہے تو اسے پہلے ہندو مذہب اختیار کرنا ہوگا، گائے کا پیشاب پینا ہوگا اور اس کے بعد ہی وہ گربا کر سکتا ہے۔‘‘
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز