پچھلے سال جون میں، اتراکھنڈ کے ایک چھوٹے سے شہر پرولا میں ہنگامہ برپا تھا۔ہندو دائیں بازو کے گروپوں کی ایک مہم جس میں شہر کو مسلمانوں سے پاک کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا، قومی سرخیاں بنی تھیں۔ کم از کم 41 خاندان اترا کھنڈ چھوڑ کر چلے گئے، جن میں سے چھ خاندان مستقل طور پر اتراکھنڈ کے مختلف حصوں میں تقریباً راتوں رات منتقل ہو گئے تھے۔
Published: undefined
ہندوتوا گروپوں کی طرف سے یہ الزام تھا کہ دو آدمیوں نے، جن میں سے ایک مسلمان تھا، ایک 14 سالہ لڑکی کو "شادی کے جھانسے" میں اغوا کر کے اسلام قبول کرنے کی کوشش کی تھی۔اس مہم نے اترکاشی ضلع میں جہاں پر پرولا واقع ہے وہاں پر مسلم مخالف ہنگامہ برپا کر دیا تھا کیونکہ ہندوتوا تنظیموں نے دو افراد - 22 سالہ اوید خان اور اس کے 24 سالہ دوست جتیندر سینی پر "لو جہاد" کا الزام لگایا۔
Published: undefined
"لو جہاد" ایک سازشی تھیوری ہے جس میں مسلمان مردوں پر الزام لگایا جاتا ہے کہ وہ ایک منظم سازش کا حصہ ہیں تاکہ ہندو خواتین کو رومانوی تعلقات میں پھنساکر انہیں بالآخر اسلام قبول کرنے کے لئے دباؤ بنایا جا سکے۔خان اور سینی پر نہ صرف تعزیرات ہند کی دفعات کے تحت ایک نابالغ کے اغوا اور حصول کا مقدمہ درج کیا گیا تھا بلکہ جنسی جرائم سے بچوں کے تحفظ کے ایکٹ یا پوکسو کے تحت بھی جنسی زیادتی کا مقدمہ درج کیا گیا تھا۔
Published: undefined
ریاست کی حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کے رہنامؤں نے فرقہ وارانہ گٹھ جوڑ کو "ایک مخصوص کمیونٹی کے باہر کے لوگوں" کے پہاڑیوں پر آنے کے بارے میں اشارے کے ساتھ ہلچل مچا دی۔تاہم، ایک سال بعد، خان اور سینی کے خلاف مقدمہ ختم ہو گیا ہے۔ 10 مئی کو، اترکاشی کی ایک عدالت نے دونوں افراد کو بری کر دیا جب اس نے پایا کہ ان کے خلاف الزامات جھوٹے ہیں۔
Published: undefined
نیوز پورٹل ’اسکرول‘ پر شائع خبر کے مطابق عدالت کا فیصلہ پولیس کے کردار پر سوال اٹھاتا ہے۔ مقدمے کی سماعت کے دوران، 14 سالہ لڑکی نے عدالت کو بتایا کہ پولیس نے اسے خان اور سینی پر اغوا کرنے کی کوشش کا الزام لگانے کے لیے کہا تھا ۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined