امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے کل وزیر اعظم نریندر مودی سےملاقات کے بعد صحافیوں سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم کو لے کر جو بیان دیا ہے کہ نریندر مودی اتنے مقبول ہیں جیسے امریکہ کے معروف گلوکار اور اداکار ایلوس ایرون پریسلے تھے۔ اچھا لگتا اگر امریکی صدر نریندر مودی کی مقبولیت کا موزانہ گلوکار اور اداکار کی بجائے ابراہم لنکن اور کینیڈی سے کرتے۔ امریکی صدر ٹرمپ نے چونکہ دو ماہ میں دوسری مرتبہ ایسا کیا ہے اس لئے ان کی نیت پر شک ہوتا ہے۔ صدر ٹرمپ کی نیت کچھ بھی رہی ہو لیکن ہندوستانی وزارت خارجہ کو اس کا نوٹس لینا چاہیے اور امریکی انتظامیہ تک یہ بات پہنچانی چاہیے، تاکہ کسی اور ملک کا سربراہ ایسی ہمت نہ کر سکے۔ کیونکہ کسی بھی ملک کے سربراہ کا موازنہ کسی اداکار اور گلوکار سے کرنا ٹھیک نہیں ہے۔
Published: undefined
یہ دوسری مرتبہ اس لئے کہا جا رہا ہے کیونکہ 26 اگست 2019 کو بھی مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے امریکی صدر ٹرمپ نے مودی کے جواب نہ دینے پر کہا تھا ’حقیقت میں ان کی انگریزی بہت اچھی ہے لیکن وہ اس وقت بات کرنا نہیں چاہتے‘‘۔ دراصل اس وقت ایک صحافی نے امریکی صدر سے پوچھا تھا کہ امریکہ ڈبلیو ٹی او معاہدہ سے باہر کیوں گیا اور وزیر اعظم نریندر مودی کی اس پر کیا رائے ہے، اس کا ہندوستان پر کس طرح کا اثر پڑے گا۔ ڈونالڈ ٹرمپ نے اپنے حصے کے سوال کا جواب دے دیا اور جب صحافی نے نریندر مودی سے ان کے حصے کا جواب پوچھا تو وزیر اعظم نریندر مودی نے ہندی میں کہا ’’مجھے لگتا ہے کہ ہم دونوں کو بات کرنے دیجیے، ہم دونوں بات کرتے رہیں گے جب ضرورت پڑے گی تو ہم آپ تک جانکاری ضرور پہنچائیں گے‘‘۔ اس پر ٹرمپ نے یہ جملہ کہا تھا کہ حقیقت میں نریندر مودی کی انگریزی بہت اچھی ہے۔ کسی بھی صدر کو دوسرے سربراہ سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں بولنے کا کوئی حق نہیں ہے اور وہ بھی اس طرح کا جواب جو کسی بھی سربراہ کے لئے توہین آمیز ہو بالکل بھی اچھا نہیں ہے۔
Published: undefined
دو ماہ میں یہ دوسری مرتبہ ہے جب امریکی صدر نے سربراہوں کے مابین وقار کی لائن کو عبور کیا ہے جو ایک اچھا عمل نہیں ہے اور اس معاملہ کو امریکی انتظامیہ تک پہنچانے کی ضرورت ہے۔ سربراہان مملکت کے درمیان جس ضروری پروٹوکول کو ذہن میں رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے اس کا یاد دلانا ضروری ہے اور اگر ایسا نہیں ہوا تو اس سے دوسرے ممالک کے سربراہوں کو بھی چھوٹ مل سکتی ہے جو ملک کی شبیہ کے لئے نقصان دہ ہو سکتا ہے۔ ٹرمپ کے اس عمل کو کسی بھی حالت میں دوستی کا نام نہیں دیا جا سکتا کیونکہ دو ممالک کے تعلقات میں سربراہوں کی دوستی کوئی معنی نہیں رکھتی۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز