تریپورہ میں گزشتہ مہینے ہوئے تشدد کے واقعات کی سچائی جاننے کے لیے کئی تنظیموں کا وفد گزشتہ دنوں تریپورہ دورہ پر گیا تھا۔ اس درمیان کچھ وفود میں وکلاء بھی شامل ہوئے تھے۔ اب خبریں سامنے آ رہی ہیں کہ ان میں سے کچھ وکلاء کے خلاف ریاستی حکومت نے مختلف دفعات کے تحت مقدمات درج کیے ہیں۔ ’ناگرک ادھیکار منچ‘ اور ’آل انڈیا لائرس یونین‘ نے تریپورہ حکومت کی اس کارروائی کے خلاف احتجاج درج کرتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ فرقہ وارانہ تشدد پر روک لگائی جائے، اور فرقہ پرستی کے خلاف کھڑے وکلاء و شہریوں کو مظالم کا شکار نہ بنایا جائے۔
Published: undefined
وکلاء، مختلف تنظیموں کے اراکین اور مشہور و معروف سماجی ہستیوں کے تقریباً 700 دستخط شدہ ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ تریپورہ حکومت نے نہ صرف تشدد کے تعلق سے سچ کا پتہ لگانے کے لیے ریاست پہنچے لوگوں کو اس سے روکا، بلکہ کئی لوگوں کے خلاف مقدمات بھی درج کیے گئے جو مناسب نہیں۔ بیان میں لکھا گیا ہے ’’سیکشن 153اے/153بی/469/471/503/504/120بی اور یو ایل اے پی ایکٹ کے سیکشن 13، 1957 (یو اے پی اے ایکٹ، 167) کے تحت تریپورہ ریاست نے جو سچائی کا پتہ لگانے کے لیے فرقہ وارانہ تشدد متاثرہ علاقوں کا دورہ کرنے والے دہلی کے 4 وکلاء کے خلاف کارروائی کی ہے، اس کے خلاف آن لائن احتجاجی عرضی۔‘‘ پھر لکھا گیا ہے ’’ناگرک ادھیکار منچ اور آل انڈیا لائرس یونین آپ کی جانکاری میں یہ لانا چاہتا ہے کہ تریپورہ انتظامیہ کی وہ کارروائی قابل مذمت ہے جس میں شہریوں اور وکلاء کو خاموش کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ وی ایچ پی، ہندو جاگرن منچ اور بجرنگ دل کے ذریعہ پیدا کیے گئے فرقہ وارانہ تشدد کی تحقیق کی کوششوں کی روکنے کی کوشش بھی ہو رہی ہے جو مناسب نہیں۔‘‘ آگے یہ بھی لکھا جاتا ہے کہ ’’یہ بھی پتہ چلا ہے کہ سپریم کورٹ کے 4 وکلاء کی ایک ٹیم نے تشدد متاثرہ علاقے یعنی راوا بازار، پانی ساگر، کیلاشر، دھرم نگر اس لیے پہنچے تاکہ فرقہ وارانہ تشدد اور گھروں و دکانوں کے ساتھ ساتھ عبادت گاہوں میں توڑ پھوڑ کی سچائی کا پتہ کیا جا سکے۔ ان وکلاء کے نام ایڈووکیٹ احتشام ہاشمی (قائد)، ایڈووکیٹ امت شریواستو، ایڈووکیٹ انصار اندوری اور ایڈووکیٹ مکیش ہیں۔ اس ٹیم کی فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ پہلے سے ہی پبلک ڈومین میں ہے۔ اس رپورٹ میں ملکیت و متاثرین کو پہنچے نقصان، متاثرہ علاقوں میں پولیس اور تریپورہ حکومت کی بے رحمی کا تذکرہ شامل ہے۔‘‘
Published: undefined
’ناگرک ادھیکار منچ‘ اور ’آل انڈیا لائرس یونین‘ کا کہنا ہے کہ فرقہ وارانہ تشدد کے خلاف رپورٹ کرنا اور احتجاج درج کرنا یا پھر قانون کی حکمرانی کے لیے زور دینا کسی بھی طرح سے یو اے پی اے، وطن سے غداری یا کسی دیگر مجرمانہ کارروائی کا حقدار نہیں۔ فیک فائنڈنگ ٹیم کے خلاف اس طرح کی کارروائی نہیں کی جا سکتی۔ ساتھ ہی یہ بھی کہا گیا ہے کہ ’’ہم پاتے ہیں کہ مرکز اور ریاستوں میں بی جے پی کی قیادت والی حکومت کے ذریعہ مایوس شہریوں اور سماجی کارکنان کے خلاف یو اے پی اے اور وطن سے غداری جیسے سخت قانونی التزامات کا استعمال اس لیے کیا جاتا ہے تاکہ ناانصافی، بدتر حکمرانی اور ناکامی کے خلاف بولنے والوں کی آواز کو دبایا جا سکے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز