مودی حکومت سے جیسی امید تھی اس نے ویسا ہی کیا ۔حکومت نے حج سفر پر دی جانے والی سبسڈی مکمل طور پر ختم کرنے کا اعلان کر دیا ۔ اس فیصلہ پر کسی کو حیرانی نہیں ہوئی کیونکہ مسلمانوں کے معاملوں میں مودی حکومت کی نیت سے سب واقف ہیں۔ طلاقہ ثلاثہ کو مجرمانہ قانوں کے تحت لانے کے لئے بل لانا، حج ہاؤس کو بھگوا رنگ سے رنگنا، مذہبی مقامات پر لاؤڈ اسپیکر پر پابندی عائد کرنا اور اب حج سبسڈی ختم کرنا یہ سب بی جے پی حکومت کی ذہنیت کی عکاسی کرتا ہے ۔ حج سبسڈی ختم کرتے وقت جو اعلان کیا گیا ہے کہ اس سے بچنے والی رقم کو مسلم بچیوں کی تعلیم پر خرچ کیا جائے گا ۔ کہنے میں یہ سب کچھ اچھا لگتا ہے لیکن حکومت نے یہ فیصلہ لے کر جو پیغام دیا ہے وہ واضح ہے کہ حکومت نے مسلمانوں کو دی جانے والی رعایت ختم کر دی ہے یعنی غیر مسلموں کے ایک بڑے طبقہ کو خوش کر دیا ۔
اس فیصلے کے بعد مسلم طبقہ کے درمیان چہ میگوئیاں ہونی شروع ہو گئی ہیں کہ طلاق ثلاثہ کے بعد ایک بار پھر مودی حکومت نے اپنے ’ووٹ بینک‘ کو مضبوط کرنے کے لیے بڑا قدم اٹھایا ہے۔ سبسڈی ختم کیے جانے سے متعلق اچانک کیا گیا یہ فیصلہ اس لیے بھی سوالوں کے گھیرے میں ہے کیونکہ سپریم کورٹ نے 2022 تک اس کو ختم کرنے کی ہدایت دی تھی لیکن ’ہندو ووٹر‘ کو خوش کرنے کے لیے مودی نے اچانک سبسڈی کو پوری طرح ختم کرنے کا فیصلہ کر لیا اور یہ فیصلہ لیتے وقت سپریم کورٹ کی 2022تک کی مدت کا بھی انتظار نہیں کیا کیونکہ 2019میں عام انتخابات ہونے ہیں۔
Published: undefined
جہاں تک حج میں دی جانے والی سبسڈی سے متعلق عام مسلمان کا سوال ہے، اوکھلا (نئی دہلی) باشندہ فاروق احمد کا کہنا ہے کہ ’’حج سبسڈی کبھی بھی مسلمانوں کی ترجیح میں نہیں رہی، حکومت نے جتنی سبسڈی دی مسلمانوں نے خاموشی سے بات مان لی۔ حقیقت تو یہ ہے کہ حج تو صرف ان پر ہی فرض ہے جو حج کا خرچ اٹھا سکتے ہیں اس لیے سبسڈی ختم ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑنے والا، لیکن لوگوں کی خواہش یہ ضرور ہے کہ حج کے دوران انتظامات اچھے ہوں۔‘‘ جمعیۃ علماء ہند (م) کا موقف بھی اس سلسلے میں شروع سے ہی بہت واضح رہا ہے اور وہ بھی سبسڈی کے حق میں نہیں رہے ہیں۔ جمعیۃ علماء نے بارہا کہا ہے کہ مسلمانوں کو کسی قسم کی حج سبسڈی کی ضرورت نہیں، انھیں صرف اور صرف حج کے دوران اچھے انتظامات چاہئیں جس کی طرف حکومت کو توجہ دینی چاہیے۔
حج سبسڈی ختم کیے جانے سے متعلق فتح پوری مسجد کے شاہی امام مفتی مکرم نے ’قومی آواز‘ سے تفصیلی گفتگو کی۔ انھوں نے اس سلسلے میں اپنا نظریہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ ’’اگر حکومت اسے واپس لے رہی ہے تو کوئی بات نہیں، وہ ان کا اختیار ہے۔ لیکن حج کمیٹی کی جانب سے جو بدنظمیاں ہیں اور جس طرح کے ناقص انتظامات وہ کرتے ہیں وہ ختم ہونے چاہئیں۔ منیٰ، مزدلفہ اور عرفات میں عازمین حج کے ساتھ جو مشکلات پیش آتی ہیں، اس طرف توجہ دینی چاہیے۔‘‘ سبسڈی سے بچے پیسوں کو مسلم بچیوں کی تعلیم پر خرچ کیے جانے سے متعلق انھوں نے کہا کہ ’’خرچ تو کچھ بھی نہیں کیا جائے گا۔ مسلمانوں کے نام پر تو حکومت کچھ کرتی ہی نہیں ہے اور بی جے پی کا تو مشن ہے کہ وہ مذہب کے نام پر مسلمانوں کے لیے کچھ نہ کرے۔ اس لیے مسلم بچیوں پر خرچ کی بات تو خواہ مخواہ تسلی دینے کے لیے کہی جا رہی ہے۔‘‘ مفتی مکرم نے مثال پیش کرتے ہوئے کہا کہ ’’مولانا آزاد فاؤنڈیشن اور اس جیسی کئی سرکاری تنظیمیں چل رہی ہیں لیکن سب کاغذوں پر ہیں اور کہیں سے کوئی فائدہ نہیں پہنچ رہا ہے۔ اس لیے مسلمانوں کو زیادہ خوش ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔‘‘
مفتی مکرم سے جب یہ پوچھا گیا کہ کیا ایسا نہیں لگتا کہ مسلمانوں کو ایک رعایت سے محروم کیا جا رہا ہے، تو انھوں نے کہا کہ ’’ہم کبھی یہ نہیں چاہتے کہ مسلمانوں کے نام پر کوئی خاص رعایت ہمیں دی جائے، لیکن ایک شہری ہونے کے ناطے ہر کمیونٹی کو جو رعایتیں ملتی ہیں اس کی امید ہم ضرور کرتے ہیں۔ جب یہ مسلمانوں کے نام پر یا مذہب کے نام پر ریزرویشن نہیں دے سکتے تو یہ مسلمانوں یا مذہب کے نام پر ملنے والی سبسڈی کو ختم کر مسلمانوں کی تعلیم کے لیے بھی اس کا استعمال نہیں کریں گے۔ وہ جو کہہ رہے ہیں سب دھوکہ ہے۔‘‘
حج سبسڈی ختم کیے جانے کے حکومت کے فیصلے کی حمایت سابق مرکزی حج کمیٹی کے چیئرمین سلامت اللہ نے بھی کی، لیکن ساتھ ہی انھوں نے کہا کہ حاجیوں سے IATA کرایہ وصول کیا جانا چاہیے نہ کہ بڑھا ہوا کرایہ۔ وہ اس سلسلے میں وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’’سعودی ائیر لائنس اور انڈین ائیر لائنس مل کر جو چارٹر کا کرایہ لیتے ہیں وہ ایک لاکھ سے ڈیڑھ لاکھ لیتے ہیں جب کہ 10 ماہ تک یہی کرایہ تقریباً 28 ہزار ہوتا ہے۔‘‘ اس سلسلے میں وہ سوال اٹھاتے ہیں کہ ’’جب 10 مہینے تک28 ہزار کرایہ ہے تو حج کے وقت کیوں اس کا کرایہ اس قدر بڑھ جاتا ہے۔ حکومت 10 مہینے کرایہ آپریٹ کرتی ہے تو پھر حج کے موقع پر کیوں آپریٹ نہیں کرتی۔‘‘
بہر حال، مودی حکومت نے اپنے فیصلے سے شدت پسند ہندو طبقہ میں ایک بار پھر یہ پیغام ضرور بھیج دیا ہے کہ وہ مسلمانوں کو کچھ دینے نہیں بلکہ چھیننے میں امید رکھتے ہیں۔ انھوں نے سبسڈی ختم کرنے سے متعلق اچانک کیے گئے فیصلہ سے ظاہر کر دیا ہے کہ جب موقع ملے گا وہ مسلمانوں کے خلاف فیصلے صادر کر دیں گے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined