انگریزی روزنامہ انڈین ایکسپریس کے مطابق پارک کے درمیان موجود اس مقبرے کو ریاستی حکومت نے یادگاری کا درجہ فراہم کیا ہوا ہے۔ مارچ کے مہینے میں اسے سفید، بھگوا رنگ سے رنگ دیا گیا اور اندر مورتیاں رکھ دی گئیں ۔ محکمہ آثار قدیمہ کےمطابق یہ ’سٹیزن چارٹر ‘ کی خلاف ورزی کا معاملہ ہے۔ جس میں یہ صاف لکھا ہے کہ کسی یادگار ی عمارت کےاندر یا باہر کسی طرح کا پینٹ نہیں کیا جا سکتا۔ یہ بھی صاف لکھا گیا ہے کہ تاریخی اہمیت والی عماراتوں کی بنیادی صورت حال کو نقصان نہیں پہنچایا جانا چاہئے۔ اس معاملے میں دہلی حکومت کے محکمہ آثار قدیمہ کا رد عمل موصول نہیں ہو سکا ہے۔
وہیں دہلی کے نائب وزیر اعلیٰ منیش سسودیا نے انڈین ایکسپریس سے کہا کہ ’’مجھے اس بارے میں کوئی معلومات نہیں ہے، میں متعلقہ محکمہ کو کہوں گا کہ وہ جانچ کرکے رپورٹ پیش کریں۔‘‘
واضح رہے کہ انڈین نیشنل ٹرسٹ فار آرٹ اینڈ کلچرل ہیریٹیج (انٹچ) کی دہلی شاخ کو محکمہ آثار قدیمہ کے تعاون سے گزشتہ سال اس 15 ویں صدی کی عمارت کی مرمت کرانی تھی۔ انٹچ دہلی کے پروجیکٹ ڈائریکٹر اجے کمار نے کہا کہ ’’اس عمارت پر تالا لگا ہواتھا ، مقامی لوگوں کی مخالفت کی وجہ سے وہ اپنا کام شروع نہیں کر سکے۔ ہم پولس کے پاس بھی گئے، لیکن بات نہیں بنی۔ اب یہ مندر میں تبدیل ہو چکا ہے ۔ ہم نے اس تاریخی عمارت کو کھو دیا ہے۔ ‘‘
Published: 04 May 2018, 12:34 PM IST
مقبرے کے نزدیک بیٹھنے کے لئے دو بھگوا رنگ کی بینچ رکھی ہوئی ہیں ، ان پر صفدر جنگ انکلیو سے بی جے پی کونسلر رادھیکا ابرول پھوگاٹ کا نام لکھا ہے۔ انڈین ایکسپریس کے ساتھ بات چیت میں انہوں نے کہا کہ ’’میری معلوت میں لائے بغیر عمارت کو مندر میں تبدیل کیا گیا ، اس میں میری رضامندی یا حمایت نہیں تھی۔ سابق بی جے پی کونسلر کی ملی بھگت سے ایسا کیا گیا تھا۔ میں نے اس کی مخالفت کی تھی لیکن یہ ایک حساس معاملہ ہے۔ ملک میں آج جس طرح کے حالات ہیں کوئی کسی مندر کو ہاتھ بھی نہیں لگا سکتا۔ میرے نام کی بینچ تو پہلے سے ہی پارک میں لگی ہوئی تھی۔ ‘‘
وہیں، انٹچ دہلی چیپٹر کی کنوینر سوپنا لیڈل نے کہا کہ ’’ایک تاریخی عمارت کو مذہبی مقام میں تبدیل کرنا یہ ایک طرح کے زمین کے قبضہ کا معاملہ ہے۔زمین پر قبضہ کرنے کا سب سے آسان طریقہ یہی ہوتا ہے کہ اسے مندر یا مزار میں تبدیل کر دو۔ ہم عمارت کے محافظ نہیں ہیں۔ ہم صرف ان کی مرمت کرتے ہیں۔ اس کی حفاظت کا کام ریاستی حکومت کا ہے ۔‘‘
مقامی رہائشی کنیکا (19)کا کہنا ہے کہ ’’یہ ہمیشہ سے ایک تاریخی عمارت تھی لیکن اس کی حالت نہایت ہی خراب تھی۔ بچپن سے ہی میرا خیال تھا کہ یہ کوئی مقبرہ ہے لیکن کچھ مہینے پہلے یہ مندر میں تبدیل ہو گیا۔‘‘
اس معاملہ پر جب مقامی رکن اسمبلی سوم ناتھ بھارتی سے ان کا رد عمل معلوم کرنے کی کوشش کی گئی تو انہوں نے کہا کہ ’’وہ فون پر کچھ نہیں کہیں گے ۔ اس کے لئے آپ کو میرے دفتر میں ذاتی طور سے ملاقات کرنی ہوگی۔ ‘‘
غورطلب ہے کہ 2010 میں ریاستی حکومت کے محکمہ شہری ترقی کی طرف سے جاری کردہ نوٹیفکیشن کے مطابق گمٹی کو ریاست کی 767 محفوظ تاریخی عمارات میں شامل کیا گیا تھا۔ اس بارے میں کسی کو شاید ہی معلوم ہو کہ یہاں کسے دفن کیا گیا ہے یا پھر اس کو کس نے تعمیر کرایا تھا ۔ حالانکہ اس کی بناوٹ و ساخت کو دیکھ کر اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یہ تغلق حکومت کے آخری دور یا لودھی دور حکومت کے آغاز کی عمارت ہے۔
Published: 04 May 2018, 12:34 PM IST
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 04 May 2018, 12:34 PM IST