مشہور امریکی میگزین ’ٹائم‘ نے اپنے تازہ شمارے میں ہندوستانی مسلمانوں کے تیزی سے بگڑتے حالات پر مفصل رپورٹ شائع کی ہے۔ جس کے مطابق ہندوستانی مسلمان ایک خطر ناک خوف کے دور سے گزر رہے ہیں۔ اتر پردیش کے شہر میرٹھ سے میگزین کے صحافی میرن گڈا (Mirren Gidda)نے شہر کے ایک بو چڑ خانے کا ذکر کر تے ہوئے لکھا ہے کہ یہ شہر بھینس کے گوشت ایکسپورٹ کا ابھی حال تک ایک اہم مرکز تھا۔ الساقب بو چڑ خانے کا معائنہ کر نے کے بعد اور اس کے مالک ساقب اخلاق سے گفتگو کے بعد صحافی میرن لکھتے ہیں کہ’’ اتر پردیش ابھی حال تک بھینس گوشت ایکسپورٹ کا مر کز تھا ۔ لیکن کو ئی چھ ماہ قبل وزیر اعلی بننے کے بعد یو گی نے جو سب سے پہلا حکم جا ری کیا اس کی رو سے یو پی کے تقریباً تمام بوچڑ خانے بند ہو گئے اور اس طرح اترپردیش کی پانچ بلین ڈالر میٹ انڈسٹری کو زبر دست جھٹکا لگا ہے‘‘۔
اپنی رپورٹ میں میرن آگے لکھتے ہیں کہ ’’ آج سے کچھ عر صے قبل تک ہندوستانی مسلمان ( جن کی تعداد 14 فیصد ہے) بطور ہندوستانی ووٹر اہم رول ادا کیا کرتے تھے اور کانگریس پارٹی خصوصاً ان کا ووٹ حاصل کر نے کی کو شش کر تی تھی ۔ تاریخی اعتبار سے بھی ہندوستانی مسلمانوں نے ہندوستان کی ترقی میں نمایاں کر دار ادا کیا ہے۔ لیکن اب یہ عالم ہے کہ مسلمانوں کی اکثریت خود کو تمام معاملات میں اپنے آپ کو حاشیہ پر محسوس کر رہے ہیں اور یہ تبدیلی سن 2014 میں مودی کی قیادت میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے بر سراقتدار آنے کے بعد ہوئی ہے‘‘۔ اس نے بھارتیہ جنتا پارٹی کے نظر یہ کو ’’ہندو قوم پرستی ‘‘سے تعبیر کیا ہے۔
اپنی رپورٹ میں صحافی میرن آگے قلم تراش ہیں کہ ہندوستانی مسلمان ’’محض اتر پر دیش میں قصاب خانوں پر لگی پابندی ‘‘ سے ہی پریشان نہیں ہیں ۔ اس کے مطابق ’’ سن 2015 سے ہندو گینگ گھوم گھوم کر لوگوں کی ماب لنچنگ کر رہے ہیں ۔ اب تک 150 ایسے واقعات ہو چکے ہیں جن میں زیادہ تر مسلمانوں کو گائے کا گوشت کھانے کے بہانے مارا جا رہا ہے‘‘۔ اس سلسلے میں ٹائم میگزین کی ایک رپورٹ میں دہلی کے نزدیک ہر یانہ میں جنید خان کے مارے جانے کا بھی خصوصی ذکر ہے۔
جنید خان کی ماب لنچنگ کا ذکر کر تے ہوئے صحافی میرن آگے لکھتے ہیں کہ اس واقعہ سے پورے ملک میں ’’غم وغصہ کی لہر دوڑ گئی اور اس کے بعد دہلی کے اخبار ہندوستان ٹائمس نے ’ہیٹ ٹریکر ‘ نام سے رپورٹ شائع کر نی شروع کی جس میں مسلمانوں پر نفرت کے سبب کئے جانے والے حملوں کا ذکر ہوتا تھا‘ ‘۔ہندوستان ٹائمس نے اس سیکشن کے تحت ’’ستمبر تک 149 واقعات ریکارڈ کئے ‘‘۔
ٹائم رپورٹ کے مطابق بی جے پی کے نقاد اس سلسلے میں بی جے پی کو ہی ذمہ دار ٹھہراتے ہیں ۔ Not in my nameکی بانی صبا دیوان کو کوٹ کر تے ہوئے رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’’ بی جے پی کا نظریہ ہندو قومیت ہے اور اس نظریہ کے مطابق ہندوستان محض ہندوؤں کا ملک ہے ۔ ظاہر ہے کہ پھر مسلمانوں کے لئے ہندوستان میں کو ئی جگہ نہیں بچتی ہے۔ صبا دیوان کا خیال ہے کہ ’’مسلمان زبر دست خوف کا شکار ہے‘‘۔
ٹائم میگزین کے مطابق ابھی حال تک ہندوستان ایسا نہیں ہو تا تھا ۔ جب مودی اقتدار میں آئے تو انہوں نے ملک کو ترقی کے خواب دیکھائے تھے لیکن پچھلے تین سال میں ملک کی جی ڈی پی گھٹ کر سب سے کم نکتہ پر پہنچ گئی ہے۔ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہی جانے والی جمہوریت اب خاصی “ Illiberal”ہو تی جا رہی ہے۔اس سلسلے میں صحافیوں پر ہونے والے حالیہ حملوں کا بھی ذکر کیا ہے۔ ’’ایسا لگتا ہےکہ ہندوستان آگے جانے کے بجائے پیچھے جا رہا ہے‘‘۔ ٹا ئم آگے لکھتا ہے۔
اس رپورٹ میں نریندر مودی کا خصوصی طور پر ذکر کرتے ہوئے ٹائم میگزین نے لکھا ہے کہ ’’ مودی نے مئی کے مہینے میں مسلم قائدین سے ملاقات کی تھی جس میں انہوں نے خصوصی طور پر کہا تھا کہ ’’ ہمارے لئے ہر قوم برابر ہے اور ہم کسی کے ساتھ مذہب یا ذات کی بنیاد پر کوئی بھید بھاؤ نہیں کر تے ہیں‘‘۔ لیکن ا س کے کچھ عرصے کےبعد جب صحافی گوری لنکیش کا قتل ہوا تو وزیر اعظم خاموش رہے۔
اس سلسلے میں میگزین نے خصوصی طور پر اتر پردیش میں یو گی آدتیہ ناتھ کے وزیر اعلی منتخب ہونے کا ذکر کیا ہے۔ ٹائم نے یوگی آدتیہ ناتھ کے وزیر اعلی بننے سے قبل ان کی تقاریر کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ انہوں نے اپنی ایک تقریر میں مسلمانوں کے تعلق سے کہا تھا کہ ’’ اگر ہم کو موقع ملا تو ہم ہر مسجد میں گوری، گنیش اور نندی کی مورتیاں نصب کر دیں گیں‘‘۔
یہ تو ابھی تک نہیں ہوا ہے لیکن مسلمان خوف کا شکار ہیں اور الساقب بو چڑ خانے میں ڈرے سہمے ورکر سر جھکا کر اپنے کام میں مصروف ہیں ’’ لیکن فی الحال مسلمان اور دیگر افراد بھی اس ’کلچرل وار ‘ میں خسارے میں ہی ہیں‘‘، ٹائم نے اپنی رپورٹ کا اختتام ان الفاظ کے ساتھ کیا ہے۔
Published: undefined
اپنی خبریں ارسال کرنے کے لیے ہمارے ای میل پتہ <a href="mailto:contact@qaumiawaz.com">contact@qaumiawaz.com</a> کا استعمال کریں۔ ساتھ ہی ہمیں اپنے نیک مشوروں سے بھی نوازیں۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined