قارئین کرام کو چند روز قبل وائرل ہونے والی وہ تصویر تو یاد ہوگی جس میں آٹھ افراد نیم عریاں حالت میں ایک قطار میں کھڑے ہیں۔ وہ صرف زیر جامہ یعنی انڈرویئر میں ملبوس ہیں۔ وہ دیوار سے لگے ہوئے ہیں اور ان کے سامنے ایک پولیس والا کچھ قانونی کارروائی کر رہا ہے۔ یہ مدھیہ پردیش کے ضلع سدھی کے ایک کوتوالی کی تصویر ہے۔ تصویر میں جو لوگ نظر آرہے ہیں ان میں سے ایک صحافی ہے باقی ایک ڈرامہ کمپنی کے فنکار ہیں۔ بظاہر ان کے چہرے کسی بھی قسم کے جذبات سے عاری نظر آرہے ہیں۔ لیکن وہ سب اپنے دونوں ہاتھوں کو سامنے نیچے کرکے ایک دوسرے پر رکھے ہوئے ہیں۔ یعنی وہ اس احساس سے اندر ہی اندر شرمندہ ہیں کہ انھیں پولیس والوں نے عریاں کر دیا ہے اور اسی لیے وہ اپنے دونوں ہاتھوں سے ستر پوشی کی ناکام کوشش کر رہے ہیں۔
Published: undefined
اس تصویر کو دیکھ کر ایسا لگا کہ یہ صرف آٹھ لوگ نہیں ہیں بلکہ یہ پورا معاشرہ ہے اور پورا ملک ہے جسے بے لباس کر دیا گیا ہے۔ اس تصویر کو دیکھ کر ہر اس شخص کا سر شرم سے جھک گیا ہوگا جس کے اندر ذرا بھی غیرت ہوگی۔ ذرا سوچیے کہ اگر آپ کو ایسی کسی صورت میں مبتلا ہونا پڑے تو کیا آپ کے دل و ذہن میں کوئی خیال نہیں آئے گا۔ کوئی احساس آپ کو کچوکے نہیں لگائے گا۔ ضرور لگائے گا۔ اور تصویر میں نظر آنے والے بھی کسی نہ کسی احساس میں گرفتار ہوں گے۔ وہ یہ سوچ رہے ہوں گے کہ آخر انھوں نے ایسا کون سا بڑا جرم کر دیا کہ ان کو بے لباس کر دیا گیا۔ وہ سوچ رہے ہوں گے کہ ان کے اہل خانہ کے سامنے یہ تصویر گزرے گی تو ان پر کیا بیتے گی۔ وہ اگر شادی شدہ ہوں گے تو یہ ضرور سوچ رہے ہوں گے کہ ان کے بچے انھیں کیا کہیں گے اور کیا ان کی مانند وہ بھی احساس جرم میں گرفتار نہیں ہو جائیں گے۔ انھوں نے ضرور ایسا سوچا ہوگا اور بعد میں اس کا ثبوت بھی ملا۔
Published: undefined
گرفتار شدگان میں سے جو ایک صحافی ہے اور جس کا نام کنشک تیواری ہے اس نے بعد میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس کی معصوم بیٹی اس سے پوچھ رہی تھی کہ پاپا آپ نے اپنے کپڑے کیوں اتار دیئے تھے۔ اب وہ بیچارہ اپنی بیٹی کو کیا جواب دیتا۔ یہ دو مارچ کا واقعہ ہے۔ پہلے ان لوگوں کو گرفتار کیا گیا۔ پھر ان کے کپڑے اتروائے گئے۔ پھر ان کی تصویر اتاری گئی اور پھر اسے وائرل کیا گیا اور پھر ان کے بیان لے کر انھیں اسی حالت میں لاک اپ میں بند کر دیا گیا۔ جب پولیس والوں سے ان کو بے لباس کرنے کے بارے میں پوچھا گیا تو پولیس کے ایک افسر نے یہ لولا لنگڑا جواب یا کہ انٹروگیشن یعنی پوچھ گچھ کے دوران ملزموں کے کپڑے اتروا دیئے جاتے ہیں۔
Published: undefined
جب پوچھا گیا کہ ان کو اسی حالت میں پندرہ گھنٹے تک کیوں لاک اپ میں رکھا گیا تو پولیس افسر نے جواب دیا کہ انھیں اس لیے کپڑے نہیں دیئے گئے کہ کہیں وہ لوگ انہی کپڑوں سے خود کشی نہ کر لیں۔ واہ رے شیو راج سنگھ چوہان کی پولیس؟ کیا جواب لے کر آئی ہے۔ ہاں پولیس تھانے میں ایسا ہو بھی سکتا ہے۔ قارئین کو کاسگنج اترپردیش کے اس مسلم نوجوان کا واقعہ تو یاد ہی ہوگا جب پولیس کے لاک اپ میں اسے بند کیا گیا اور وہاں اس کی موت ہو گئی تو پولیس والوں نے بتایا تھا کہ اس نے لاک اپ کے نلکے میں ایک رسی باندھ کر اس سے خودکشی کر لی ہے۔ حالانکہ وہ نلکا فرش سے صرف دو ڈھائی فٹ ہی اونچا تھا۔ جب اس طرح ملزمین خود کشی کر سکتے ہیں تو پھر اپنے کپڑوں سے کیوں نہیں کر سکتے۔ اگر یہ بات درست ہے تو پھر کہیں بھی ملزموں کو کپڑے پہننے کو نہیں دینے چاہئیں۔ خواہ وہ پولیس کا لاک اپ ہو یا جیل کا سیل۔
Published: undefined
اب ذرا یہ بھی جان لیجیے کہ ان لوگوں کا جرم کیا تھا۔ ان کے ساتھ جو سلوک کیا گیا اس سے تو یہی لگتا ہے کہ انھوں نے کوئی بہت بڑا جرم کر دیا ہوگا۔ لیکن ان کا جرم صرف اتنا تھا کہ وہ پولیس کی جانب سے ایک فنکار کی گرفتاری کے خلاف احتجاج کر رہے تھے۔ اور یو ٹیوب صحافی کا جرم یہ تھا کہ وہ بی جے پی کے ایک ایم ایل اے کے خلاف ہونے والے احتجاج کی رپورٹنگ کرنے گیا تھا۔ فنکار کو اس لیے گرفتار کر لیا گیا تھا کہ بقول پولیس، اس نے ایک فرضی فیس بک آئی ڈی بنا کر مذکورہ ایم ایل اے اور اس کے بیٹے کے خلاف کمنٹس کیے تھے۔ جب چھان بین میں انکشاف ہوا کہ فلاں شخص نے فرضی آئی ڈی بنائی ہے تو اسے گرفتار کر لیا گیا۔ لیکن صحافی کا کیا جرم تھا۔ کیا کسی واقعہ کی رپورٹنگ کرنا جرم ہے۔ ہاں شاید جرم ہے اگر اس واقعہ میں بی جے پی کا کوئی نیتا ملوث ہو۔
Published: undefined
پولیس کی اس کارروائی کے بعد تادم تحریر جو اطلاع ہے وہ یہ ہے کہ دو پولیس والوں کو سزا دی گئی ہے اور سزا کیا دی گئی ہے کہ انھیں لائن حاضر کر دیا گیا ہے۔ یعنی اب وہ دفتری کام انجام دیں گے۔ کیا یہ سزا کافی ہے۔ کیونکہ قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ پولیس کو یہ قانونی اختیار نہیں ہے کہ وہ کسی ملزم کے کپڑے اتروائے۔ پولیس کو یہ بھی اختیار نہیں ہے کہ وہ متعلقہ حکام کی اجازت کے بغیر کسی ملزم کو ہتھکڑی لگائے۔ لیکن یہ سب کچھ ہو رہا ہے۔ خود سپریم کورٹ نے ہتھکڑی میں عام ملزموں کو عدالت میں پیش کرنے سے روکا ہے۔ لیکن دہلی فسادات میں ملزم بنائے گئے عمر خالد کو ہتھکڑی لگا کر عدالت میں پیش کیا جاتا ہے اور دوسروں کو بھی۔
Published: undefined
دراصل اب یہ ایک نیا ہندوستان ہے۔ بقول وزیر اعظم نریندر مودی یہ ایک نیا بھارت ہے۔ اب اس نئے بھارت میں کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ پولیس کسی کو بھی پکڑ کر عریاں کر سکتی ہے۔ کوئی بھی شخص بھگوا لباس پہن کر اور کسی بھی مسجد کے سامنے لاوڈ اسپیکر سے دوسرے فرقے کی خواتین کو ریپ کرنے کی دھمکی دے سکتا ہے۔ کوئی بھی جلوس کسی بھی مسجد کے باہر ہنگامہ کر سکتا ہے۔ مسجد پر چڑھ کر بھگوا جھنڈا لہرا سکتا ہے۔ بشرطیکہ جلوس کے شرکا بھگوا لباس پہنے ہوں یا بھگوا رومال گلے میں ڈالے ہوئے ہوں۔
Published: undefined
اب تو کوئی بھی سادھو کسی بھی جلسے میں ہندووں کو ہتھیار اٹھا لینے اور انھیں ایک فرقے کے قتل عام کے لیے اکسا سکتا ہے۔ اب ایسا بہت کچھ ہو سکتا ہے جیسا پہلے کبھی نہیں ہوتا تھا۔ اب یہ سب کچھ جرم نہیں رہ گیا۔ اپرادھ نہیں رہ گیا۔ کیوں؟ اس لیے کہ یہ نیا بھارت ہے۔ ہاں اگر اقلیتی طبقے کے کسی فرد کے خلاف کوئی جھوٹی رپورٹ ہی لکھوا دے تو پولیس فوراً حرکت میں آجائے گی اور اسے گرفتار کرکے جیل میں ڈال دے گی۔ کیوں؟ اس لیے کہ یہ نیا بھارت ہے اور اس نئے بھارت میں ہندووں کی حکومت ہے۔ ایک ایسی حکومت جس میں قانون ’’منہ دیکھی‘‘ کرتا ہے اور عدالتیں خاموش تماشائی بنی رہتی ہیں۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز