دہلی کے روہنی کورٹ میں گزشتہ 9 دسمبر کو ہوئے دھماکہ کے تعلق سے ایک نیا انکشاف ہوا ہے۔ بتایا جا رہا ہے کہ دھماکہ کرنے والا ایک سائنسداں تھا جس نے کسی وکیل کو مارنے کے لیے سازش تیار کی تھی۔ سائنسداں کا نام بھارت بھوشن کٹاریا ہے جسے پولیس نے گرفتار کر لیا ہے اور پوچھ تاچھ جاری ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق گرفتار سائنسداں نے ہی روہنی کورٹ نمبر 102 میں بم رکھا تھا۔ ذرائع کے حوالے سے آ رہی خبروں میں بتایا گیا ہے کہ ملزم کا ایک وکیل سے کوئی معاملہ چل رہا تھا جسے وہ مارنا چاہتا تھا۔ دہلی پولیس اسپیشل سیل کو جانچ کے دوران ملزم سائنسداں کے خلاف کئی ثبوت ملے ہیں جس کے بعد اس کی گرفتاری عمل میں آئی۔
Published: undefined
ہندی نیوز پورٹل ’آج تک‘ پر شائع ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ابتدائی جانچ میں کچھ ایسی باتیں سامنے آئیں ہیں جس سے پتہ چلا کہ دھماکہ معاملے میں سائنسداں اکیلے ہی شامل تھا۔ ایک پریس کانفرنس کے دوران دہلی پولیس کمشنر راکیش استھانہ نے بتایا کہ کئی ٹیمیں جانچ میں مصروف تھیں۔ جانچ کے دوران 1000 گاڑیوں کی شناخت کی گئی جو دھماکہ والے دن روہنی کورٹ آئی تھیں۔ عدالت میں اس دن جن جن معاملوں کی سماعت ہونی تھی، ان کی بھی جانچ کی گئی۔ پھر جس سیاہ رنگ کے بیگ میں بم رکھا گیا تھا، اس پر کمپنی کا لوگو لگا تھا۔ تفتیش میں پتہ چلا کہ کمپنی ممبئی کی ہے۔ اس کا دفتر دہلی میں بھی ہے۔ پھر پتہ کیا گیا کہ کون کون اس کمپنی کے بیگ کا استعمال کر رہا تھا۔ یہیں سے پولیس کو دھماکہ معاملہ میں اہم سراغ ہاتھ لگا۔
Published: undefined
پولیس کمشنر نے بتایا کہ بیگ سے کچھ فائل اور کورٹ کے پیپر بھی برآمد ہوئے تھے۔ یہ فائل کہاں بنی، کون بیچتا اور بناتا ہے، اس کی بھی جانچ کی گئی۔ جمعہ کو بھارت بھوشن کٹاریا کو گرفتار کیا گیا جو سائنسداں ہیں۔ ان کے گھر کی تلاشی لی گئی۔ اس دوران کئی ایسے سامان ملے جن کا اس دھماکہ سے لنک جڑتا ہے۔
Published: undefined
استھانہ کا کہنا ہے کہ سی سی ٹی وی فوٹیج کی جب جانچ کی گئی تو پتہ چلا کہ بھارت بھوشن کٹاریا دو بیگ لے کر عدالت پہنچے تھے۔ سیدھے راستے نہ آ کر کٹاریا دوسرے راستے سے عدالت پہنچے اور ایک بیگ کورٹ روم کے باہر رکھ دیا۔ 10.35 بجے دھماکہ کے بعد دوسرا بیگ لے کر عدالت سے چلے گئے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز