پھالگن مہینے کی پورنیما کے دن جہاں ہر سال رنگوں کے تہوار میں عام سے خاص لوگ رنگ میں ڈوب کر خوشیاں مناتے ہیں، وہیں بہار کے مونگیر ضلع میں ایک ایسا بھی گاؤں ہے جہاں ہولی نہیں منائی جاتی۔ ہولی کے دن اس گاؤں کے لوگ نہ صرف خود کو رنگوں سے دور رکھتے ہیں بلکہ گھروں میں پوا پکوان بھی نہیں بنایا جاتا ہے۔
Published: undefined
مونگیر ضلع ہیڈکوارٹر کے قریب 50 کلومیٹر دور اثر گنج کے ستی استھان گاؤں کے دیہی باشندوں کے لیے ہولی کوئی تہوار نہیں ہے۔ ہولی کے دن بھی یہاں کے لوگوں کی زندگی عام دنوں کی طرح چلتی ہے۔ دیہی باشندے کہتے ہیں کہ یہ کوئی آج کی بات نہیں ہے کہ گاؤں میں ہولی نہیں منائی جاتی۔ لوگوں کا دعویٰ ہے کہ اس گاؤں میں 200 سال سے ہولی نہیں منائی جاتی۔ اس کے اسباب سے متعلق پوچھے جانے پر گاؤں کے رہنے والے کہتے ہیں کہ اب تو یہاں کی یہ روایت بن گئی ہے۔ لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ ہولی منانے پر گاؤں میں آفت آتی ہے، اس وجہ سے لوگ ہولی نہیں مناتے ہیں۔
Published: undefined
دیہی باشندہ جلدھر سنگھ کہتے ہیں کہ انجانے خوف کے سبب لوگ یہاں ہولی نہیں مناتے ہیں۔ انھوں نے ایک سنی سنائی بات کا تذکرہ کرتے ہوئے بتایا کہ کہا جاتا ہے 200 سال پہلے گاؤں میں ایک ضعیف جوڑا رہتا تھا۔ پھالگن مہینے میں ہولیکا جلنے کے دن شوہر کا انتقال ہو گیا۔ اس واقعہ سے غمزدہ بیوی نے شوہر کے ساتھ ستی ہونے کی خواہش ظاہر کی، لیکن گاؤں والوں نے خاتون کو گھر میں بند کر دیا۔
Published: undefined
شوہر کی اَرتھی شمشان لے جانے کے دوران اس کی لاش گاؤں سے باہر نکلی بھی نہیں تھی اور بار بار گر جاتی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ مقامی لوگ ان کی بیوی کو گھر سے بلاتے ہیں اور پھر ان کے پہنچنے کے بعد آگے لاش کو لے جانے میں کوئی دقت نہیں ہوئی۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ شوہر کی لاش میں اپنے آپ آگ لگ گئی اور اسی میں بیوی بھی سَتی ہو گئی، یعنی جل گئی۔
Published: undefined
عقیدہ ہے کہ گاؤں میں جہاں آج سَتی مندر ہے، وہیں یہ واقعہ پیش آیا تھا۔ لوگوں کے تعاون سے سَتی استھل پر مندر کی تعمیر کی گئی ہے۔ اس گاؤں کا نام بھی اسی واقعہ کے بعد سَتی استھان رکھا گیا ہے۔ گاؤں کے بزرگ مہیش سنگھ نے بتایا کہ پھالگن مہینے میں ماں سَتی ہوئی تھی، اس لیے گاؤں میں ہولی نہیں منائی جاتی ہے، نہ پکوان بنائے جاتے ہیں۔
Published: undefined
دوسری طرف سجوا پنچایت کے مکھیا دھرمیندر مانجھی بتاتے ہیں کہ تقریباً 2000 کی آبادی والے اس گاؤں میں یہاں کے آبا و اجداد سے ہی یہ روایت چلی آ رہی ہے جس پر آج بھی عمل کیا جاتا ہے۔ گاؤں کے سبھی لوگ ایک انجانے خوف سے کبھی بھی ہولی منانے کی کوشش نہیں کرتے۔ انھوں نے بتایا کہ اس گاؤں کے کئی لوگ دوسرے گاؤں اور شہر جا کر گھر بنا کر بس گئے ہیں، لیکن وہاں بھی وہ ہولی نہیں مناتے۔ کہا تو یہ بھی جاتا ہے کہ جس نے بھی اس روایت کو توڑنے کی کوشش کی ہے، اس کے گھر میں کوئی نہ کوئی پریشانی آ جاتی ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز