قومی خبریں

خاتون ریزرویشن بل کی راہ میں ہیں کئی رخنات، پیش ہے سرسری جائزہ

20 ستمبر کو خاتون ریزرویشن بل پر لوک سبھا میں بحث ہونی ہے، یہ بل پاس ہو گیا تو لوک سبھا کے ساتھ ساتھ ریاستوں کی اسمبلیوں میں بھی بہت کچھ بدل جائے گا، لیکن اس کے لیے راہیں بہت آسان نہیں ہیں۔

<div class="paragraphs"><p>خاتون ریزرویشن بل لوک سبھا میں پیش کیے جانے کے بعد خواتین میں جشن</p></div>

خاتون ریزرویشن بل لوک سبھا میں پیش کیے جانے کے بعد خواتین میں جشن

 

تصویر قومی آواز/ویپن

خاتون ریزرویشن بل 19 ستمبر کو لوک سبھا میں پیش کر دیا اور اب 20 ستمبر کو ایوانِ زیریں میں اس پر بحث ہونی ہے۔ اس بل کے پاس ہونے اور قانون بننے کے بعد لوک سبھا اور ریاستوں کی اسمبلیوں میں بہت کچھ بدل جائے گا۔ حالانکہ خواتین کے لیے 33 فیصد ریزرویشن یقینی بنانے والے اس بل کے قانون بننے کی راہ میں کئی رخنات بھی ہیں۔ آئین پر گہری نظر رکھنے والوں کا دعویٰ ہے کہ بل کو عملی جامہ پہنانے کے لیے کئی رکاوٹوں کو پار کرنا ہوگا اور اس میں سب سے پہلا رخنہ تو فوری مردم شماری اور ڈیلمٹیشن کا عمل ہے۔

Published: undefined

ماہرین کا کہنا ہے کہ بل (آئین کی 128ویں ترمیم) کے ضابطوں میں یہ صاف درج ہے کہ خاتون ریزرویشن بل کے قانون بننے کے بعد تب نافذ ہوگا جب آئندہ مردم شماری کے اعداد و شمار کی بنیاد پر حد بندی (ڈیلمٹیشن) یا انتخابی حلقوں کی از سر نو تعین کا عمل انجام دیا جائے۔ اس کے علاوہ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں سے بل کے پاس ہونے کے بعد اسے قانون بننے کے لیے کم از کم 50 فیصد ریاستی اسمبلیوں سے بھی منظوری لینی ہوگی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس سے ریاستوں کے حقوق متاثر ہوتے ہیں۔

Published: undefined

قابل ذکر ہے کہ 2002 میں کی گئی آئین ترمیم کے بعد آئین کے آرٹیکل 82 کے مطابق 2021 میں ہونے والی مردم شماری کے اعداد و شمار کے حساب سے حد بندی کا عمل 2026 میں ہونا تھا۔ پھر 2026 کے بعد پہلی مردم شماری 2031 میں کی جانی ہے، جس کے بعد انتخابی حلقوں کی نئی حد بندی ہوگی۔ ظاہر ہے کہ 2021 میں مردم شماری کا عمل شروع ہونا تھا جسے کورونا وبا کے سبب ملتوی کر دیا گیا تھا۔ ان حالات کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ 2029 کے لوک سبھا انتخاب سے پہلے خاتون ریزرویشن کو حقیقت میں بدلنے کے لیے حکومت کو تیزی سے کام کرنا ہوگا، جو ممکن دکھائی نہیں دے رہا۔

Published: undefined

سیاسی ماہرین نے ایک اور بڑی فکر کا اظہار کیا ہے۔ ان کا سوال ہے کہ کیا خواتین اپنے شوہروں کے پاس حقیقی طاقت ہونے کے بعد بھی ترجیح حاصل کر سکتی ہیں؟ مشہور وکیل شلپی جین کا اس معاملے میں کہنا ہے کہ اگر کوٹہ کے تحت منتخب نمائندہ انہی کنبوں سے ہوں گے جہاں مرد رشتہ دار سیاست میں ہیں تو ایسے میں خواتین کے فروغ کے لیے بنائے گئے اس قانون کا مقصد ناکام ہو جائے گا۔ انھوں نے کہا کہ اس بل میں ان خواتین کو انتخاب لڑنے کے لیے حوصلہ دینے کا التزام ہو سکتا ہے جو سیاسی پس منظر سے نہیں ہیں۔ ورنہ ریزرویشن کا مقصد ہی فوت ہو جائے گا۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined