رٹول آم کا وجود اس وقت خطرے میں ہے۔ مینگو ڈپلومیسی کی شروعات کرنے والا بے حد خوشبودار اور میٹھے آم رٹول کو لے کر ہندوستان اور پاکستان میں جاری رسہ کشی کے بعد جی آئی ٹیگ تو ہندوستان کو مل گیا ہے، لیکن فکر اس بات کی ہے کہ این سی آر میں آنے کے بعد زمین کی اندھا دھند قیمتوں کے سبب باغپت کے رٹول گاؤں کا یہ آم آنے والے کچھ سالوں میں اپنا وجود کھو سکتا ہے۔
Published: undefined
رٹول گاؤں کے سابق پردھان جنید فریدی رٹول کے مستقبل کو لے کر فکرمند دکھائی دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ایک طرف قومی راجدھانی دہلی علاقہ میں شامل ہونا جہاں ترقی کے دروازے کھول رہا ہے، وہیں یہ جدید ترقی ایک قابل فخر تاریخ کو دھندلا کرنے کی سمت میں بھی بڑھ رہی ہے۔ زمین کی بڑھتی قیمت اور رہائشی ضروریات کے درمیان آم کے باغوں کا کاٹا جانا تاریخی رٹول آم کے وجود پر خطرہ پیدا کر رہا ہے۔
Published: undefined
جنید فریدی کی فکر اس لیے بھی جائز ہے کیونکہ 12 سال مستقل لڑائی لڑ کر انھوں نے رٹول آم کے لیے جی آئی ٹیگ حاصل کیا ہے۔ جی آئی ٹیگ جیوگرافیکل انڈیکیٹر ہوتا ہے۔ جنید فریدی کے آبا و اجداد رٹول آم کے موجد رہے ہیں۔ آج کل رٹول آم اس لیے بھی زیادہ موضوعِ بحث ہے کیونکہ اس پر پاکستان نے بھی اپنا دعویٰ پیش کیا تھا۔ یہ الگ بات ہے کہ پاکستان دنیا بھر مین انور رٹول نام سے آم کی برآمدگی کرتا ہے جب کہ رٹول آم کا پیٹنٹ جنید فریدی کنبہ کے پاس ہے۔
Published: undefined
رٹول آم کی بڑی تاریخی اہمیت ہے۔ اسے ہندوستان اور پاکستان کے درمیان مینگو ڈپلومیسی کے لیے بھی جانا جاتا ہے۔ اتر پردیش حکومت میں سابق وزیر رہے ڈاکٹر معراج الدین رٹول آم کے موجد شیخ محمد آفاق فریدی کے کنبہ سے ہیں۔ وہ اس سے جڑا ہوا ایک بے حد مزیدار قصہ سناتے ہیں۔ معراج الدین بتاتے ہیں کہ پاکستانی سربراہ جنرل ضیاء الحق نے ہماری وزیر اعظم اندرا گاندھی جی کو آم بھیجے اور کہا کہ وہ پاکستان کا سب سے مشہور آم ہندوستان بھیج رہے ہیں۔ اس آم کا نام انور رٹول تھا۔ جب ہمیں یہ بات پتہ چلی تو ہمنے اندرا جی سے ملنے کی گزارش کی۔ میرے والد حکیم سیف کے بڑے نام کے چلتے ہمیں ان سے ملنے کا وقت مل گیا۔ ہم اپنے ہی باغپت سے رٹول آم لے کر اندرا جی کے پاس گئے۔ ہم نے انھیں آم تحفہ میں پیش کیا جس آم کو پاکستان اپنا بتا رہا ہے۔ درحقیقت اس آم کا جغرافیائی وجود تو ہندوستان ہی ہے۔ باغپت میں رٹول نام کے گاؤں میں اس کی پیداوار ہوئی۔ اندرا جی نے جب یہ سنا تو وہ بہت خوش ہوئیں۔ انھوں نے دھون صاحب کو کہا کہ آم کو اچھی طرح پیک کراؤ اور پاکستان بھیجو، اور کہو کہ ’ہم اصلی والا بھیج رہے ہیں۔‘
Published: undefined
اب ہندوستان کو جی آئی ٹیگ ملنے کے بعد پاکستان کہہ رہا ہے کہ وہ بین الاقوامی عدالت میں جا کر رٹول آم پر اپنا دعویٰ پیش کریں گے۔ یہ بتاتے ہوئے جنید فریدی کہتے ہیں کہ ہمارا گاؤں رٹول آم کی اس نسل کی وجہ سے پوری دنیا میں موضوعِ بحث بن چکا ہے۔ بے حد میٹھے اس آم کی خوبی اس کی خوشبو ہے۔ اس آم کو اگر آپ کمرے میں رکھ دیں تو اس کی خوشبو سے پورا کمرہ مہک جاتا ہے۔ ہندوستان میں صرف 50 روپے کلو فروخت ہونے والا یہ آم بیرون ممالک میں ایک ہزار روپے کلو فروخت ہو رہا ہے۔ اس میں سب سے خاص بات یہ ہے کہ بین الاقوامی بازار میں اس آم کو انور رٹول نام سے فروخت کیا جا رہا ہے اور پاکستان اسے اپنی نسل بتاتا ہے۔
Published: undefined
رٹول آم کا جی آئی ٹیگ حاصل کرنے والے جنید فریدی بتاتے ہیں کہ پاکستان کچھ بھی کہے لیکن سچ یہ ہے کہ رٹول آم کا ایجاد اتر پردیش کے باغپت ضلع کے گاؤں رٹول میں ہوا ہے۔ دنیا کے کسی علاقے میں رٹول نام کا کوئی دوسرا گاؤں ہو تو وہ ہمیں دکھا دیں! ہماری پشتوں نے کافی محنت سے اس آم کی پیداوار کی۔ ہمارے آفاق ابا نے رٹول کا پودا لگایا۔ ہمارے یہاں 500 قسم کے آم ہیں۔ ہمارے پردادا یہاں نرسری لگاتے رہے ہیں۔ رٹول گاؤں ہمارا ہے۔ آزادی سے پہلے 1934 کے آس پاس ہمارے ایک رشتہ دار انوارالحق رٹول آم کی قلم پاکستان لے گئے تھے جہاں رٹول آم کو ’انور رٹول‘ نام سے شہرت مل گئی۔
Published: undefined
رٹول آم کی شہرت کا عالم یہ ہے کہ دہلی سے 35 کلومیٹر دور باغپت ضلع کے اس گاؤں میں غیر ملکی سیاح صرف آم کھانے پہنچ رہے ہیں۔ مقامی باشندہ نوشاد علی بتاتے ہیں کہ ایک آم نے ہمارے گاؤں کو عالمی شناخت دی ہے۔ آج کل چونکہ رٹول آم کی فصل چل رہی ہے تو یہاں وی وی آئی پی باغوں میں لگاتار آتے جا رہے ہیں۔ اکثر یہاں غیر ملکی سیاح بھی پہنچتے ہیں۔ نوشاد علی بتاتے ہیں کہ حالانکہ یہ بات درست ہے کہ عالمی منظرنامہ پر انور رٹول کو زیادہ شہرت ملی ہے، جب کہ رٹول کی پیدائش یہاں ہوئی ہے۔ باقی سب اشتہاری نظام کا نتیجہ ہے۔
Published: undefined
پاکستان سے برآمدگی زیادہ ہوئی ہے۔ پاکستان میں انور رٹول آم پر ڈاک ٹکٹ بھی جاری ہوا ہے۔ اب مینگو فیڈریشن آف انڈیا کافی سرگرمی دکھا رہی ہے۔ جنید فریدی کہتے ہیں کہ رٹول آم مختلف آم مقابلوں میں اوّل آتا رہا ہے۔ کاش ہم اس پر تھوڑا پہلے بیدار ہو گئے ہوتے۔
Published: undefined
جنید فریدی اپنے دادا شیخ محمد آفاق کو یاد کرتے ہوئے رٹول سے جڑے تمام دستاویزات دکھاتے ہیں۔ جنید فریدی بے حد فخر کے ساتھ سابق وزیر اعظم اندرا گاندھی کی لکھی ہوئی چٹھی دکھاتے ہوئے بتاتے ہیں کہ اندرا جی نے آم کی تعریف کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان کے پورے کنبہ نے اس آم کا ذائقہ لیا۔ سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپئی بھی رٹول گاؤں پہنچ کر اس آم کا مزہ لے چکے ہیں۔ رٹول اب گاؤں سے قصبہ بن چکا ہے۔ جنید فریدی کہتے ہیں کہ حالانکہ اب باغوں کے کاٹے جانے سے رٹول اپنی تاریخی اہمیت سے محروم ہو سکتا ہے۔
Published: undefined
ویسے رٹول آم تو ختم نہیں ہوگا کیونکہ اس کے پودے دنیا بھر میں پھیل گئے ہیں۔ جنید کہتے ہیں کہ ایک بار بالی ووڈ اداکار فاروق شیخ اپنے ساتھ 10 مزدور لے کر آئے تھے اور 50 پودے لے جا کر انھوں نے ممبئی میں اپنے باغ میں لگا دیئے تھے۔ لیکن اصل سوال یہ ہے کہ جہاں رٹول آم کی بنیاد ہے، وہیں اس پھل کو خطرہ کیوں ہے۔ حکومت اگر اس طرف تھوڑی توجہ دے تو حالات بہتر ہو سکتے ہیں، اور جدیدیت کی چکاچوندھ میں آم کے بیش قیمتی باغ کٹنے سے بچ سکتے ہیں۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined