سپریم کورٹ کے ایک فیصلے کو ریزرو بینک آف انڈیا (آر بی آئی) نے نافذ کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ اس فیصلے سے قرضداروں کو بڑی راحت ملنے والی ہے۔ دراصل معاملہ بینک سے لیے جانے والے قرض کا ہے، اور اب ڈیفالٹر یا فراڈ کے طور پر قرضدار کو زمرہ بند کرنے سے پہلے بینکوں کو انھیں اپنی بات رکھنے کا موقع دینا پڑے گا۔
Published: undefined
گزشتہ سال سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ فطری انصاف کے اصولوں کو توجہ میں رکھتے ہوئے آڈٹ رپورٹ کے نتیجہ کو قرضداروں کو سمجھانے کا موقع دیا جانا چاہیے۔ بینکنگ ماہرین کے مطابق پرائیویٹ سیکٹر کے بینک 90 دنوں کے کولنگ پیریڈ کے بعد قرض داروں کے خلاف براہ راست تیزی کے ساتھ قدم اٹھاتے ہیں۔ کئی بار یہ دیکھنے کو ملا ہے کہ بینکوں کی جلدبازی زیادتی کا سبب بن گئی۔ اسی وجہ سے ملک کی سب سے بڑی عدالت نے گزشتہ سال آر بی آئی کو اصولوں میں تبدیلی لانے کا حکم دیا تھا۔
Published: undefined
وائس آف بینکنگ ادارہ سے جڑے اشونی رانا کا کہنا ہے کہ جب کوئی شخص قرض لینے جاتا ہے تب بینک اس کے سبھی دستاویزات، حیثیت سمیت دیگر پہلوؤں پر غور کرتا ہے۔ ایسے میں جب وہی شخص قرض لوٹانے میں کچھ وقت تک نااہل ہوتا ہے تب بھی ایک موقع دیا جانا چاہیے اور جاننا چاہیے کہ قرض نہ ادا کر پانے کے پیچھے کی وہج کیا ہے۔ یہی درست طریقہ ہے۔ انھوں نے کہا کہ کئی بار ایسے معاملے سامنے آئے ہیں جب بینک کی طرف سے قانونی کارروائی شروع کر دی گئی اور بعد میں متعلقہ قرضدار کے خراب حالات جان کر بھی بینک افسران کوئی مدد نہیں کر سکے۔
Published: undefined
بینکنگ معاملوں کے ماہر وکیل شریکانت شکلا کے مطابق سپریم کورٹ کا فیصلہ فطری انصاف کی بنیاد پر تھا۔ پہلے بینک قرضدار کو اگر کوئی بینک فراڈ یا ڈیفالٹر کے طور پر زمرہ بند کر دیتا تھا اور قانونی کارروائی شروع کر دیتا تھا تو ایسی حالت میں قرضدار اپنی بات یا دفاع عدالت کی دہلیز پر جا کر ہی کر سکتا تھا، جبکہ بینک کا اصل مقصد دیا ہوا قرض واپس حاصل کرنا ہے۔ ایسے میں نوٹس دینے سے پہلے قرضدار کی بات سننے میں بینکوں کو کوئی پریشانی نہیں ہوگی۔
Published: undefined
شکلا کا کہنا ہے کہ ملک بھر میں ایسے لاکھوں معاملے ہیں جن میں آر بی آئی کو قرضداروں نے بینک کے ذریعہ اٹھائے گئے اقدام کو زیادتی قرار دیا تھا۔ جب معاملہ سپریم کورٹ پہنچا تو عدالت نے یہ صاف کر دیا کہ قرضدار کو ایک موقع دیا جانا تو بنتا ہے۔ بہرحال، اب بینکوں کو ایسے معاملوں میں تین ہفتہ کا وقت قرضداروں کو اپنی بات رکھنے کے لیے دینا ہوگا۔ ساتھ ہی اب جواب سنے بغیر بینک کی طرف سے وجہ بتاؤ نوٹس جاری نہیں کیا جا سکے گا۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز