نئی دہلی: مودی حکومت کی جانب سے 2016 میں نافذ کی گئی نوٹ بندی کے آئینی جواز کے خلاف دائر کی گئی عرضیوں پر سپریم کورٹ میں پانچ ججوں کی آئینی بنچ میں 12 اکتوبر کو سماعت ہوگی۔ نوٹ بندی کے خلاف عرضیوں پر سپریم کورٹ نے سوال کیا ہے کہ اب اس معاملے میں کیا باقی ہے؟ کیا اس معاملے کی جانچ کرنے کی ضرورت ہے؟ کیا یہ معاملہ بے اثر تو نہیں ہو گیا؟ کیا یہ مسئلہ اب صرف علمی تو نہیں رہ گیا؟
Published: undefined
بنچ کی سربراہی کر رہے جسٹس عبدالنظیر نے پوچھا- لیکن کیا اس معاملے میں اب کچھ باقی رہ گیا ہے؟ جسٹس گوائی نے کہا اگر کچھ نہیں بچا تو ہم کیوں آگے بڑھیں؟ عرضی گزاروں میں سے ایک کے لیے پیش ہونے والے پرناؤ بھوشن نے کہا کہ کچھ مسائل ہیں، بعد میں آنے والے نوٹیفکیشنز کی درستگی، تکلیف سے متعلق معاملات، کیا نوٹ بندی نے مساوات کے حق اور اظہار رائے کی آزادی کے حق کی خلاف ورزی کی ہے؟ وہیں سالیسٹر جنرل نے کہا کہ ’میرے خیال میں کچھ علمی مسائل کے علاوہ کچھ نہیں بچا ہے۔ کیا تعلیمی مسائل پر فیصلہ کرنے کے لئے 5 ججوں کو بیٹھنا چاہئے؟‘
Published: undefined
خیال رہے کہ نوٹ بندی کی عرضیوں پر سماعت کرنے والی بنچ جسٹس ایس عبد النظیر، جسٹس بی آر گوائی، جسٹس اے ایس بوپنا، جسٹس وی راما سبرامنیم اور جسٹس بی وی ناگرتھنا پر مشتمل ہے۔ اس آئینی بنچ کے سامنے پانچ اہم نکات زیر غور آئیں گے۔ پہلا نکتہ نوٹ بندی کے حکم کو چیلنج کرنا ہے۔
Published: undefined
عرضی 2016 میں ہی دائر کی گئی تھی۔ اس وقت وزیر اعظم نریندر مودی کی قیادت میں حکومت نے 500 اور 1000 روپے کے نوٹ منسوخ کر دیئے تھے۔ تب وویک نارائن شرما نے عرضی داخل کر کے حکومت کے اس اقدام کو چیلنج کیا تھا۔ اس عرضی کے بعد مزید 57 عرضیاں دائر کی گئیں۔ اب ان تمام عرضیوں کو یکجا کر کے سماعت کی جائے گی۔ مرکز کی جانب سے سالیسٹر جنرل تشار مہتا نے کہا- ’ہم تیار ہیں، جب چاہیں سماعت کی جا سکتی ہے۔‘
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز