کچھ ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام خطوں میں ہندوؤں کو اقلیتی درجہ دینے کا مطالبہ کافی دنوں سے کیا جا رہا ہے۔ اس معاملے میں کچھ عرضیاں سپریم کورٹ میں زیر سماعت بھی ہیں۔ آج اس عرضی پر سماعت کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے حکومتوں کے رویہ سے ناراضگی ظاہر کی۔ دراصل ریاستی سطح پر اقلیتوں کی شناخت کو لے کر جموں و کشمیر سمیت چھ ریاستوں و مرکز کے زیر انتظام خطوں کے ذریعہ مرکزی حکومت کو اپنی رائے نہیں دینے پر منگل کے روز سپریم کورٹ نے ناراضگی کا اظہار کیا۔
Published: undefined
جسٹس ایس کے کول، جسٹس اے ایس اوکا اور جسٹس جے بی پاردی والا کی بنچ نے کہا کہ وہ یہ نہیں سمجھ پا رہے کہ ان ریاستوں نے اپنا جواب کیوں نہیں دیا۔ بنچ نے کہا کہ ’’ہم مرکزی حکومت کو ان کا جواب لینے کا آخری موقع دیتے ہیں۔ ایسا نہیں ہونے پر ہم مان لیں گے کہ ان کے پاس کہنے کے لیے کچھ نہیں ہے۔‘‘ مرکز کی طرف سے پیش اٹارنی جنرل آر وینکٹ رمنی نے حالیہ اسٹیٹس رپورٹ کا حوالہ دیا جس میں کہا گیا ہے کہ اب تک 24 ریاستوں اور 6 مرکز کے زیر انتظام خطوں نے ہی اس سلسلے میں اپنا تبصرہ دیا ہے۔
Published: undefined
گزشتہ ہفتہ سپریم کورٹ میں داخل اسٹیٹس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اروناچل پردیش، جموں و کشمیر، جھارکھنڈ، لکشدیپ، راجستھان اور تلنگانہ سے اب تک جواب نہیں ملا ہے۔ جب وینکٹ رمنی نے بنچ سے کہا کہ چھ ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام خطوں نے اب تک اس معاملے پر اپنی رائے نہیں دی ہے، تو بنچ نے کہا کہ وہ طویل مدت تک ایسا نہیں کر سکتے اور یہ مان لیا جائے گا کہ وہ جواب نہیں دینا چاہتے ہیں۔
Published: undefined
واضح رہے کہ ایک عرضی دہندہ کی طرف سے پیش وکیل نے اپنی بات رکھتے ہوئے کہا کہ جموں و کشمیر میں ہندو اقلیت میں ہیں، اس لیے انھیں اقلیتی درجہ ملنا چاہیے۔ اس معاملے کے عرضی دہندگان میں سے ایک ایڈووکیٹ اشونی کمار اپادھیائے نے کہا کہ یہ ایک اہم معاملہ ہے جس کو سنجیدگی سے لیا جانا چاہیے۔ پھر بنچ نے اس معاملے میں آئندہ سماعت کے لیے 21 مارچ کی تاریخ مقرر کر دی۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز